محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 22 جولائی 2022ء)

محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارے میں مکرم محمد احمد صاحب کا ایک مضمون پاکستان کے انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ کی 21؍نومبر 2012ء کی اشاعت میں شامل ہے جس میں اس دکھ کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس عظیم پاکستانی سپوت کی وطن عزیز کے لیے بےلَوث اور بےبہا خدمات کا پاکستان میں اعتراف نہیں کیا جاتا۔ اس مضمون کا اردو ترجمہ مکرم راجا نصراللہ خان صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍ستمبر2013ء میں شائع ہوا ہے۔

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

21؍نومبر (مضمون کی تاریخِ اشاعت) محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا یوم وفات بھی ہے۔ اگرچہ دنیابھر میں اُن کی کامیابیوں اور خدمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اُن کے اپنے ملک میں اس کا اعتراف نہیں کیا جاتا جہاں اُن کو اُن کے پیدائشی عقیدے کی وجہ سے غیرمسلم بنادیا گیا ہے۔ Grand Unified Theory کے سلسلے میں نمایاں کام کی وجہ سے انہوں نے نوبل انعام حاصل کیا۔اکتیس سال کی عمر میں وہ امپیریل کالج لندن میں نظری طبیعات کے سب سے کم عمر پروفیسر بن گئے۔ 1996ء میں اپنی وفات تک دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی بیالیس اعزازی ڈگریاں اُنہیں دی گئیں۔ جب پاکستان کو اُن کی ضرورت ہوئی تو وہ صدر کے سائنسی مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے مغرب سے واپس چلے آئے اور اگلی دہائی میں قریباً پانچ سو پاکستانی سائنس دانوں کو بیرون ملک بھیج کر پاکستان میں ریسرچ کو آگے بڑھایا۔ 1961ء میں اُن کی تجویز پر ستمبر میں خلائی ایجنسی سپارکو کا قیام عمل میں آیا اور آپ اس کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ایک ماہ بعد آپ نے امریکہ کے ساتھ خلائی تعاون کا معاہدہ کیا۔ نومبر میں بلوچستان میں خلائی پروگرام کی سہولت کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر شروع ہوئی تو آپ اس کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ آپ نے سوئٹزرلینڈ سے ایٹمی ماہر طبیعات اشفاق احمد کو وطن واپس بلاکر نیوکلیئر فزکس ڈویژن کا سربراہ بنادیا۔ آپ نے ہی پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے پہلے ممبر کی حیثیت سے ملک بھر میں تحقیقی تجربہ گاہیں قائم کیں۔ 1965ء میں کینیڈا کے ساتھ ایٹمی توانائی تعاون کا معاہدہ کیا جبکہ اسی سال امریکہ نے ایک چھوٹا ریسرچ ری ایکٹر پاکستان کو مہیا کیا۔ اسی سال آپ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا قیام عمل لائے۔آپ اُن سائنسدانوں کے پینل میں شامل تھے جسے وزیراعظم بھٹو نے ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی منظّم تیاری کے لیے تشکیل دیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے اس حوالے سے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں کئی ذیلی گروپ قائم کیے اوربیرون ملک سے کئی سائنسی ماہرین کو طلب کیا گیا۔ اگرچہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیے جانے پر آپ پاکستان سے چلے گئے لیکن اس کے باوجود ایٹمی انرجی کمیشن کے ساتھ مسلسل تعاون جاری رکھا اور ایٹم بم کی تیاری کے کام کو اپنی نگرانی میں آگے بڑھاتے رہے۔
اُن کی پاکستان کے لیے خدمات کی ایک طویل داستان ہے۔ لیکن بدلے میں اس ملک نے اُن کو کیا دیا۔ پاکستان نے اُن کے اعزاز میں فقط ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا لیکن یہ تو افریقی ملک بینن (Benin)نے بھی کیا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ ریاضی کے علاوہ کوئی شعبہ یا تنظیم یا بلڈنگ اُن کے نام سے منسوب نہیں کی گئی جبکہ اٹلی کا مرکز برائے نظری طبیعات ICTP جسے 1964ء میں انہوں نے ہی قائم کیا تھا، وہ اُن کے نام سے منسوب کردیا گیا۔
محترم ڈاکٹر صاحب اور پاکستان کے ساتھ ایک دشمنی اُس وقت کی گئی جب جنرل ضیاءالحق نے 1986ء میں اُن کا نام یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کے انتخاب کے لیے پیش کرنے سے انکار کردیا جبکہ کئی ممالک محترم ڈاکٹر صاحب کو اپنی حمایت کا یقین دلاچکے تھے۔ ضیاءالحق نے ان کی بجائے صاحبزادہ یعقوب علی خان کا نام بھجوایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر ممالک نے اپنی رائے تبدیل کرلی اور پاکستان کا امیدوار بھاری فرق سے ہار گیا۔ اگرچہ ان انتخابات سے قبل برطانیہ اور اٹلی نے ڈاکٹر صاحب کو اُن کا نام اپنی طرف سے بھجوانے کی پیشکش کی تھی لیکن آپ نے اُن کی شرائط پر یہ پیشکش قبول نہیں کی۔ بہرحال آپ نے اقوام متحدہ کی سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق متعدد کمیٹیوں کے عہدیدار کے طور پر خدمات انجام دیں، تھرڈورلڈ اکیڈمی آف سائنسز (TWAS) کی بنیاد بھی رکھی۔ بعدازاں آپ نے ہگزبوسان پر زبردست کام کیا جس کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی پارٹیکل فزکس کی لیبارٹری واقع سرن (سوئٹزرلینڈ) میں ایک سڑک کا نام آپ کے نام پر رکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات لندن میں ہوئی اور تدفین پاکستان میں۔ لیکن عدم رواداری کے جذبات کو کم کرنے کے لیے مقامی مجسٹریٹ نے اُن کے لوح مزار میں تحریر تبدیل کردی۔ کیا ہم وطن عزیز کے اس عظیم ترین سپوت کے ساتھ روا رکھے جانے والے اپنے سلوک کی وجہ سے اپنے آپ کو معاف کرسکتے ہیں؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں