محترم چودھری اعجاز نصراللہ خان صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍اکتوبر 2010ء میں مکرم زکریا نصراللہ خانصاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے اپنے والد محترم چودھری اعجاز نصراللہ خانصاحب شہید کا ذکرخیر کیا جو 28مئی 2010ء کو دارالذکر لاہور میں شہید کردیئے گئے۔
محترم چودھری اعجاز نصراللہ خانصاحب کی عمر 83 برس تھی۔ آپ 6؍ اکتوبر 1927ء کو حضرت چوہدری محمد اسداللہ خانصاحبؓ (سابق امیر جماعت لاہور) کے ہاں داتا زیدکا ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحبؓ ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ قادیان (والد حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ) کے پوتے تھے اور آپ کی پرورش گیارہ سال تک انہی کے ہاں ہوئی۔
آپ نے میٹرک تک تعلیم قادیان سے حاصل کی اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کرکے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ پھر لندن جاکر بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی۔
آپ کو متفرق جماعتی خدمات بجالانے کی توفیق ملتی رہی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر مرکز کے لئے زمین کی تلاش اور پھر ربوہ کی آبادکاری کے لئے کام کیا۔ آپ بھی اُس وقت حضرت مصلح موعودؓ کے پہلو میں کھڑے تھے جب حضورؓ نے مستری کو اپنی چھڑی سے ایک نشان لگا کر حکم فرمایا تھا کہ یہاں کھدائی کرو اور پھر وہاں سے ہی پانی دریافت ہوا۔ آپ نائب ناظر امورعامہ کے علاوہ امیر جماعت اسلام آباد، ممبر فقہ کمیٹی، نائب امیر ضلع لاہور اور ممبر قضاء بورڈ بھی رہے۔
آپ خلافت سے انتہائی وفا کے ساتھ پیار کرنے والے، انتہائی نڈر اور جوشیلے داعی الی اللہ تھے۔ انتہائی مخالفت کے باوجود اپنے دفتر میں تبلیغ کرتے اور مشکل حالات میں بھی اپنے احمدی ہونے کا اعلان بڑے فخر سے کیا کرتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خود کو کلیۃً جماعتی کاموں کے لئے وقف کر دیا۔ انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نمازیں ادا کیا کرتے اور جو دعا کے لئے کہتا اُس کا نام لے کر نماز میں دعا کرتے۔ ہمیشہ راضی بہ رضائے الٰہی رہتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ خداتعالیٰ جو بھی کرتا ہے ہماری بہتری کے لئے ہی کرتا ہے اس لئے مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ اُس کی رضا پر خوشی سے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔
وقت کی پابندی کا بے حد خیال رکھتے۔ آپ کا معمول تھا کہ روزانہ تہجد ادا کرتے۔ پھر نماز فجر ادا کرکے قریباً ایک گھنٹہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔
خداتعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ چندہ کی بروقت اور باقاعدہ ادائیگی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے چندہ کی ادائیگی میں تھوڑی سی بھی تاخیر ہو جاتی تو آپ کی طبیعت میں بے چینی حد درجہ بڑھ جاتی اور جب تک چندہ ادا نہ کر لیتے فکرمند رہتے۔ شہادت سے تین سال قبل حصہ جائیداد بھی ادا کردیا۔ ہر تحریک میں فراخ دلی سے حصہ لیتے اور بہت سے یتامیٰ اور مساکین کے مستقل وظائف لگائے ہوئے تھے۔ تنگ دست گھرانوں کی کئی بچیوں کی شادی میں مدد کی۔ یہ سخاوت رازداری سے مستقل جاری رہتی۔
آپ کی زندگی بے شمار ایمان افروز واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جن دنوں آپ مناپلی کنٹرول اتھارٹی کے رجسٹرار کے طور پر اسلام آباد میں تعینات تھے تو ایک فائل کارروائی کے لئے آپ کے پاس آئی جو قانونی تقاضوں پر پوری نہ اتری تو آپ نے اسے Approve کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر وزیراعظم بھٹو اتنا ناراض ہوا کہ اس نے حضرت چوہدری ظفراللہ خانصاحبؓ کے بارے میں بھی گستاخانہ کلمات کہے اور آپ کو ایک دھمکی آمیز نوٹ لکھا جس کامتن یہ تھا کہ یا تو ہمارا یہ کام کر دو ورنہ تمہارے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ یہ معاملہ کسی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں پیش کیا تو حضورؒ نے آپ کے دوستوں سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے اپنا احمدی ہونا کبھی چھپایا ہے؟ جواباً ساتھیوں نے عرض کیا کہ حضور! چھپانا تو دُور کی بات، یہ تو اعلانیہ دعوت الی اللہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ جواب سن کر حضورؒ نے فرمایا: ’’اچھا، پھر بزدل ہے تو استعفیٰ دے دے۔‘‘ جب یہ جواب آپ کو ملا تو اُس وقت آپ کے برادرنسبتی محترم خواجہ سرفراز احمد صاحب مرحوم بھی وہاں موجود تھے چنانچہ اُن کے مشورہ سے آپ نے ایک خط بھٹو کو لکھا جس کے آخر میں لکھا :
“If I resign, it may seem that I have got something to hide and since that is not the case, I have decided not to resign. You may go ahead and do what so ever you may like”.
یہ جواب پڑھ کر بھٹو نے آپ کو بغیر کوئی وجہ بتائے نوکری سے برخواست کر دیا۔ اور آپ نے بھٹو کا خط دعا کی درخواست کے ساتھ حضورؒ کی خدمت میں پیش کردیا۔ وہاں محترم چوہدری عبدالحق ورک صاحب سابق امیر جماعت اسلام آباد بھی موجود تھے۔ اگلے روز فجر کے بعد انہوں نے آپ کو بتایا کہ رات کو میںآپ کے لئے دعا کر رہا تھا تو آواز آئی ’’چھٹیاں منائو، عیش کرو۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مارشل لاء لگنے کے بعد ایک انکوائری کے نتیجہ میں آپ کے حق میں فیصلہ ہوا کہ آپ کو نو کری پر بحال کیاجاتا ہے اور دو سال کا درمیانی عرصہ چھٹی تصور کیا جائے گا۔
ایک اور واقعہ کچھ یوں ہے کہ آپ کی ایک نئے دفتر میں پوسٹنگ ہوئی تو وہاں ایک شخص سلسلہ کی انتہائی مخالفت کرتا تھا۔ اس کی ترقی لمبے عرصہ سے رُکی ہوئی تھی۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ نیا آنے والا افسر احمدی ہے تو اس کو اپنی ترقی کے رہے سہے آثار بھی ختم ہوتے نظر آئے۔ سو اس نے پہلے سے بھی زیادہ شدّت سے مخالفت شروع کر دی۔ آپ اس کے باوجود اس سے پیار کا سلوک فرماتے رہے اور جب ترقی کا معاملہ پیش ہوا تو آپ نے سفارش بھی کردی۔ جب اس مخالف پر یہ حقیقت ظاہر ہوئی تو وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آپ کے دفتر میں حاضر ہوا اور اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگی اور نوکری کے بعد بھی آپ کے حسن سلوک اورحق شناسی کے گن گاتا رہا۔
محترم چودھری صاحب انتہائی صابر و شاکر تھے۔ ایک دلفریب مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے امتحانوں سے دعا کرتے ہوئے نبرد آزما رہے۔ بیماری میں بھی انتہائی برداشت کا مظاہرہ ہوتا۔ صبر کا یہ عالم تھا کہ اگر کبھی وہ صرف اتنا کہہ دیتے کہ آج کچھ درد محسوس ہو رہا ہے تو ہم سمجھ جاتے کہ تکلیف برداشت سے بڑھ چکی ہے اور پھر ڈاکٹری معائنہ سے یہی بات ثابت ہوتی تھی۔ آپ کہا کرتے تھے کہ جو برداشت ہو جائے وہ تکلیف نہیں ہوتی ۔ آپ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی آپ کی زندگی میں فوت ہوئے تو بھی آپ نے انتہائی صبر کا نمونہ پیش کیا۔
جہاں آپ ایک باوقار طبیعت کے مالک تھے وہیں آپ کی عاجزی بھی قابل دید تھی۔ ایمان کی حرارت سے لبریز ہونے کے باوجود اپنی کمزوری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مولاکی خوشنودی کی طلب میں رہے۔ ایک بار فرمایا کہ ’’مجھے اپنے مولا سے صرف رحم کی بھیک مانگنے میں ہی عافیت نظر آتی ہے اور اگر روزجزا سزا میرا مولا مجھ سے یہ سوال پوچھے کہ کوئی ایک وجہ بتا کہ میں تجھے بخش دوں تو میرے پاس اس کا صرف ایک جواب ہے کہ اے میرے مولا میں نے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے سامنے اُف نہیں کی، کبھی نہیں کا لفظ ان کے سامنے نہیں کہا، ان کی خدمت بغیر کسی حیل و حجت اور بغیر کسی لالچ کے کی ہے۔ میرے پاس بس یہی ایک چیز ہے۔
آپ بہت مہمان نواز تھے۔ کثرت سے آنے والے مہمان ہمیشہ آپ کی بے تکلفی اور پیار کے سبب اپنے آپ کو گھر کا حصہ ہی تصور کرتے۔ اگر کبھی مہمان غیر از جماعت دوست ہوں تو انہیں دل کھول کر تبلیغ کرتے۔ ان مہمانوں میں امیر اور غریب ہر قسم کے لوگ ہوتے۔ بڑے سیاستدان اور صنعتکار، اعلیٰ عدالتوں کے جج، وزیر، سفیر سب ہی ہوتے۔ آپ دوسروں کے کام تو آتے مگر اپنے کسی ذاتی کام کی خاطر کبھی ان تعلقات کا سہارا نہ لیتے۔ چنانچہ جرمنی کے نائب وزیر خارجہ نے آپ کو جرمنی کا visa کا دعوت نامہ بھجوایا لیکن 80 سال کا ہونے کے باوجود آپ نے صبح پانچ بجے سفارتخانہ کے باہر عام لوگوں کے ہمراہ قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری پر ویزا حاصل کیا۔
کچھ عرصہ قبل جماعت لاہور نے حفاظت کے پیش نظر چند ہدایات دی تھیں جن میں کبھی کبھی نماز جمعہ سے غیر حاضری بھی شامل تھی۔ آپ نے فرمایا کہ باقی ہدایات پر تو عمل کروں گا لیکن یہ مَیں نہیں مان سکتا اور جمعہ چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان ظالموں کا کیا ہے ، یہ زیادہ سے زیادہ ہمیں شہید ہی کر دیں گے۔ ہمیں اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے؟
چنانچہ 28مئی 2010ء کو آپ کی یہ خواہش خداتعالیٰ نے پوری فرما دی اور امیر صاحب ضلع کے کہنے پر کہ چوہدری صاحب! آپ محفوظ جگہ پر چلے جائیں۔ آپ نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں نے تو شہادت کی دعا مانگی ہے، میں کیسے چلا جاؤں؟ یہ وہ آخری الفاظ تھے جو آپ نے ادا فرمائے اورپھر چہرہ پر مسکراہٹ اور دل میں ایمان اور اطمینان لئے آپ اپنے خالق حقیقی کے حضور اپنے جسم پر گولیوںاور گرنیڈ کے زخم تمغوں کی طرح سجائے فخر سے پیش ہوگئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں