محترم چودھری بشیر احمد صاحب

محترم چودھری بشیر احمد صاحب 10؍اکتوبر 1935ء کو پھالیہ کے ایک گاؤں مرالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم چودھری شاہ محمد صاحب نے اوائل جوانی میں قبول احمدیت اور پھر علاقے بھر میں خوب دعوت الی اللہ کی توفیق پائی تھی۔اسی لئے محترم بشیر صاحب کو جو ماحول ملا وہ خالص دینی اور مذہبی تھا۔آپ کی وضع قطع لب و لہجہ دیندارانہ تھا اور دنیادارانہ چالاکیوں سے مکمل پاک تھا۔ اپنے علاقے سے میٹرک کرنے کے بعد آپ نے تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے بی۔اے کیا۔ آپ کے والد صاحب کی خواہش تھی کہ تعلیم مکمل کرکے آپ خود کو جماعتی خدمات کے لئے پیش کردیں اسی لئے آپ کو ’وقف اولاد‘ کی تحریک میں بھی شامل کیا ہوا تھا۔ اس وقت آپ نے جماعتی خدمات کے لئے وقف کرنے میں پس و پیش سے کام لیا اور گورنمنٹ کی ملازمت کی کوشش شروع کردی۔ اس سلسلہ میں آپ کے والد صاحب نے آپ کے متعلق مکمل خاموشی اختیار کرلی۔ آخرکار جب لمبے عرصے تک آپ مارے مارے پھرتے رہے لیکن ملازمت نہ ملی تو اپنے والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے فرمایا ’جو شخص خدا کی نوکری کو چھوڑ کر گورنمنٹ کی نوکری تلاش کرے اس کے ساتھ یہی حال متوقع تھا‘ ۔ آپ کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اپنے والد کے ہمراہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی کے خواستگار ہوئے۔ حضورؒ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بطور مدرس آپ کا تقرر فرمادیا۔ اس واقعہ کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ عہد وقف کی اہمیت غیرمعمولی ہے اور جب مکرم چودھری صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو آپ نے فوراً اپنی غلطی کو تسلیم کرکے سر تسلیم خم کردیا۔ بعد ازاں دوران ملازمت آپ کو اسلامیات میں ایم۔اے کرنے کی توفیق بھی عطا ہوئی۔ سکول کے بورڈنگ ہاؤس کے بھی نگران رہے۔ نہایت شفیق تھے اگر کسی طالبعلم کو سزا دینی پڑتی تو اس کا کرب آپ کے چہرہ سے ظاہر ہوتا۔
جب تعلیم الاسلام سکول کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا تو تھوڑے عرصہ بعد محترم چودھری بشیر احمد صاحب کی تقرری بطور ہیڈماسٹر دوسری جگہوں پر ہوتی رہی اورایک موقعہ پر آپ کو گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول منڈی بہاؤالدین کا چارج سنبھالنے کی درخواست کی گئی کیونکہ سکول کے طالبعلموں اور اساتذہ کے درمیان شدید اختلافات تھے اور نظم و ضبط درہم برہم تھا۔آپ نے مختصر عرصے میں اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مثالی کام کیا جس کی وجہ سے بعض لوگوں نے اپنے رسوخ سے کام لے کر آپ کی تبدیلی کروادی۔ تبدیلی کی خبر سنتے ہی سکول کے اساتذہ، طلباء اور علاقے کے شرفاء نے پورے شہر میں جلوس نکالا اور صدر بازار کے چوک میں آپ کی خدمات پر پُرجوش تقاریر کیں اور پھر ڈپٹی کمشنر کے سامنے آپ کی آمد سے قبل اور بعد کے دستاویزی ثبوت پیش کئے جس کے بعد آپ کی تبدیلی منسوخ کردی گئی۔
منڈی بہاؤالدین میں قیام کے دوران آپ کے سپرد جماعت احمدیہ منڈی شہر کی صدارت کی ذمہ داری بھی قریباً پانچ سال تک رہی۔ نماز باجماعت کا آپ کو اس قدر شوق تھا کہ کئی بار آپ بیماری اور کمزوری سے گِر پڑتے تھے لیکن مسجد آنا ترک نہیں کرتے تھے۔ نماز تہجد کی ادائیگی کے پابند تھے۔ ہمیشہ ٹوپی سر پر رکھتے، تحریر و تقریر میں خاص ملکہ حاصل تھا، اسیر راہ مولیٰ ہونے کی سعادت بھی آپ کے حصہ میں آئی۔
آخری عمر میں آپ پر فالج کا حملہ ہوا اور چند سال اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے بعد بالآخر 5؍اگست 1994ء کو آپ وفات پاگئے۔ آپ کا ذکر خیر مکرم نصیر احمد وڑائچ صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍دسمبر 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں