محترم چودھری شبیر احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8نومبر میں مکرم عبدالخالق خان صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم چودھری شبیر احمد صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ اپریل 2004ء میں خاکسار کو وکالت مال اوّل میں خدمت کے لئے بھجوایا گیا۔ اس طرح تقریباً8سال تک مکرم چوہدری صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔آپ کو ایک افسر سے زیادہ ایک مہربان، مشفق وجود اور مربی کے طور پر پایا۔ خاکسار دفتری امور سے بالکل نابلد تھا۔ لیکن آپ ہمیشہ حوصلہ بڑھاتے اور فرماتے کہ جب بھی کسی کام کی سمجھ نہ آئے تو کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، سیدھے میرے پاس آجایا کریں مَیں آپ کو سمجھا دیا کروں گا۔ کبھی کوئی غلطی ہو جاتی تو حوصلہ دیتے کہ کام ہوگا تو غلطیاں بھی ہوں گی۔ کبھی کسی بات پر خاکسار کو نہیں ڈانٹا۔ اکثر وقت پر کام کرنے پر بہت خوش ہوتے اور کوئی نہ کوئی انعام دیتے۔ کمپیوٹر پر ٹائپنگ سیکھنے کے لئے میری حوصلہ افزائی کی۔ جب مَیں آپ کے پاس آیا تھا تو صرف F.Sc کیا ہوا تھا۔ آپ کی حوصلہ افزائی سے پرائیویٹ طور پر B.A.اور پھر M.A بھی کرلیا۔ جب مَیں نے M.A. میں پاس ہونے پر آپ کو بتایا تو گلے لگا کر مبارکباد دی اور فرمایا آپ تو مجھ سے آگے نکل گئے ہیں، مَیں نے تو صرف بی اے کیا ہوا ہے۔

محترم چودھری شبیر احمد صاحب

ایک مرتبہ ایک الارم کلاک مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ آپ کو تہجد پر اُٹھایا کرے گا پھر آپ میرے لئے بھی دعا کیا کرنا۔ اس طرح تہجد پر اُٹھنے کی ترغیب دلائی۔ ایک مرتبہ جائے نماز تحفہ دی۔
دفتر میں آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی اکثر اپنی ذاتی رقم سے کیا کرتے تھے۔ ہر مہمان سے اس طرح ملتے کہ گویا اُسے برسوں سے جانتے ہیں لیکن بعض دفعہ بعد میں پوچھتے کہ یہ صاحب کون تھے؟۔تب معلوم ہوتا کہ آپ پہلی مرتبہ اُس مہمان سے ملے تھے۔ کارکنان کو تاکید تھی کہ مہمان کو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ کسی اجنبی جگہ پر آئے ہیں۔ نصیحت کرنے سے پہلے خود عملی نمونہ پیش کرتے ۔ویسے نصیحت کاانداز بہت شگفتہ ہوتا تھا۔ اکثر لطیفے یا ذاتی زندگی کے سچے واقعات سناکر نصیحت کرتے اور اتنا پیارا انداز ہوا کرتا تھا کہ کبھی بُرا نہیں لگا۔
ایک دن فرمایا جب مَیں نے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر زندگی وقف کی تو ملٹری اکائونٹس میں سپرنٹنڈنٹ تھا۔ وہاں کی تنخواہ کی نسبت وقف کا الاؤنس بہت کم تھا۔ لیکن باوجود کم الائونس کے اللہ تعالیٰ نے مجھے کبھی بھوکا نہیں سونے دیا اور نہ مجھے کبھی اپنے وقف کرنے پر کوئی پچھتاوا ہوا۔ بہت متوکّل انسان تھے۔
ایک مرتبہ مجھے بخار ہو گیا تو پہلے ہسپتال سے دوا لانے بھیجا اور واپس آنے پر اپنے کمرہ میں رکھے ہوئے ایک چھوٹے سے بیڈ پر لٹادیا اور اپنے ہاتھ سے سیب کاٹ کر دیا کہ کھالو۔
جب کبھی اپنا کوئی ذاتی کام کرواتے تو پہلے پوچھتے کہ اس سے دفتری کام کا حرج تو نہیں ہوگا؟ کام ہونے کے بعد اتنے شکرگزار ہوتے کہ ہمیں شرم محسوس ہوتی کہ اتنا بڑا کام تو نہیں تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنی ایک چھوٹی سی کتاب بعنوان’’دلنشین یادیں‘‘ ٹائپ کروائی اور اس چھوٹے سے کام کو ہمیشہ یاد رکھا۔ جب آپ صاحب فراش ہوئے تو ایک دن باتوں باتوں میں فرمانے لگے آپ نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ خاکسار حیران ہوا اور دل میں سوچنے لگا احسان تو آپ کے مجھ پر ہیں۔ ابھی مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ فرمانے لگے آپ نے خلفاء کرام کی یادیں ٹائپ کر کے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے ورنہ یہ کام رہ جانا تھا۔ مَیں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔
آپ کثرت کے ساتھ صدقہ کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی تحفہ رقم کی صورت میں دیتا تو ہمیشہ مساجد فنڈ میں جمع کروا دیا کرتے تھے۔ بہت سے احباب کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے جن میں سے بعض احمدی نہیں تھے۔
جب مَیں نے ایک پرانی موٹرسائیکل خریدی تو معلوم ہونے پر فرمایا کہ ہر مہینہ 10،20 روپے جتنی بھی توفیق ہو اس کا صدقہ نکالتے رہنا۔ اس طرح صدقہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ حادثات سے بچاتا ہے۔
عاجزی اور بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ کسی دفتری کامیابی کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے تھے۔ ایک بار مَیں نے اطلاع دی کہ پاکستان کا چندہ تحریک جدید کا ٹارگٹ پورا ہو گیا ہے تو فرمایا: الحمدللہ، ٹارگٹ اللہ تعالیٰ پورا فرماتا ہے اور نام ہم لوگوں کا ہو جاتا ہے۔
اکثر کہا کرتے تھے کہ تحریک جدید کا جو اُنیسواں مطالبہ ’’دعا‘‘حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا ہے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آپ خود بھی ایک انتہائی دعاگو بزرگ تھے۔جب کبھی آپ سے دعا کی درخواست کرتا تو پوچھتے کہ کیا حضور انور کو دعا کی درخواست کر دی ہے؟ جواب اثبات میں ملتا تو پھر کہتے اچھا مَیں بھی دعا کروں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں