محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب

روزنامہ الفضل ربوہ 10؍مارچ 2011ء میں شامل اشاعت مکرم محمد لطیف احمد صاحب نے اپنے مضمون میں محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

محترم چودھری صاحب نے وقف زندگی کے عہد کو صدق دل سے نبھایا۔ ایک بار فرمایا کہ انگلینڈ میں قیام کے دوران مختصر الاؤنس میں گزارہ کرنا ہوتا تھا۔ ایک وقت میں میرے پاس جرابوں کا صرف ایک جوڑا تھا جسے روزانہ رات کو دھوکر صبح پہن لیتا تھا۔آپ بڑی سادہ مگر باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ لباس صاف ستھرا مگر حسب ضرورت ہوتا۔ گھر میں تہہ بند پہنے ہوتے تو بھی بلاتکلّف مل لیتے۔
انگریزی پر آپ کو خوب عبور حاصل تھا۔ جب بھی اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لئے مضمون لکھتے تو انگریزی کا سہارا لیتے۔ جس کا اردو ترجمہ کروایا جاتا۔ نفس مضمون پر ہرجہت سے آپ کی گرفت بڑی مضبوط تھی۔
آپ بطور ناظر اصلاح و ارشاد اخبار الفضل کے بھی نگران تھے۔ اکثر شام کو پیدل دفتر الفضل تشریف لاتے اور انتظامی امور اور حسابات کا جائزہ لے کر خطوط وغیرہ لکھواتے۔ پیچیدہ معاملات کی تہہ تک بہت جلد پہنچ کر انہیں نپٹا دیتے۔ طرز استدلال متأثر کُن تھا۔
1974ء کے حالات میں آپ ناظر امورعامہ تھے۔ ایسے میں قریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ مسلسل گھر سے باہر گزارا اور اس دوران بغیر بستر کے چارپائی آپ کے زیراستعمال رہی۔ اسی طرح کئی اہم نظارتوں کی ذمہ داری ادا کرنے کے علاوہ آپ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے۔ اس دوران روزانہ ساری ڈاک کو ذاتی طور پر پڑھتے اور حضورؒ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ترتیب دیتے۔ اکثر نماز عصر تک دفتر میں مصروف رہتے۔ جب حضورؒ کے علم میں یہ بات آئی کہ آپ دوپہر کا کھانا شام کو گھر جاکر کھاتے ہیں توروزانہ دوپہر کا کھانا حضورؒ کے باورچی خانہ سے بھجوایا جاتا رہا۔ اور یہ سلسلہ آپ کے پرائیویٹ سیکرٹری رہنے تک قائم رہا۔ آپ کی یادداشت بہت اعلیٰ پایہ کی تھی۔ دو تین ماہ پہلے آنے والے خط کی بالکل درست نشاندہی کردیا کرتے تھے۔ یہ بھی بتادیتے کہ فلاں رنگ کے کاغذ پر پہلے یا دوسرے صفحہ پر فلاں بات لکھی ہوئی ہے۔یہ تجربہ کئی بار ہوا۔ حضورؒ کی ہدایات کے مطابق خطوط کے جوابات خود بھی لکھتے اور لکھواتے بھی تھے۔ کسی کے اچھے کام کی بڑی قدر کرتے اور پھر ہمیشہ یاد بھی رکھتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں