محترم چودھری مبارک مصلح الدین صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 2؍دسمبر 2022ء)

چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جنوری 2014ء میں مکرم قیصر محمود صاحب نے محترم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجھے وکالت تعلیم میں آپ کے ساتھ پانچ سال کام کرنے کی توفیق ملی ۔

قیصر محمود صاحب

آپ کا خلافت سے بے حد پیار اور اطاعت کا تعلق تھا۔ دفتر کے مربیان اور کارکنان کی خلافت کے ساتھ وابستگی کو بڑھانے کے لیے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی اختلافاتِ سلسلہ کے بارے میں تقریر پڑھواتے اور بتاتے کہ جن لوگوں نے خلافت سے تعلق توڑا ان کا کیا انجام ہوا۔ خلفاء کے ساتھ اپنے ذاتی واقعات بھی اکثر سنایا کرتے تھے۔
آپ دوسروں کو نیکی کی ترغیب دلاتے رہتے تھے۔ نماز اور رمضان کے روزوں کے حوالے سے کارکنان کا جائزہ لیا کرتے۔ اگر کسی کے بارے میں پتہ چلتا کہ وہ سستی کرتا ہے تواسے توجہ دلاتے۔ مربیان کو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ایک مربی سلسلہ کو تہجد پڑھنا لازم قرار دیتے تھے۔(ماخوذ از انوارالعلوم جلد نمبر5صفحہ 587)
آپ خود بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتے تھے۔ لیکن روزانہ قرآن کریم کی تلاوت اور پھر مسجد مبارک میں نماز تراویح میں قرآن کریم یاد کرتے۔ اسی طرح آنحضورﷺ کی سنت کے مطابق رمضان میں بہت خیرات کیا کرتے تھے۔
آپ کو ہر وقت مزید علم حاصل کرنے کی پیاس تھی۔ اگر کبھی کوئی لفظ ایسا سامنے آتا جس کے متعلق کوئی شبہ ہوتا تو لغات اور ڈکشنری کے ذریعے اس کے معانی کو confirmکرتے۔ روزمرّہ امور کے بارے میں مفید مشورے دیتے۔ تفسیر کبیر سے پڑھ کر بتاتے کہ نماز کا کونسا رُکن کیسے ادا کرنا چاہیے۔ قرآن کریم کا صحیح تلفّظ سکھانے کے لیے کلاس لیتے جس میں قرآن کریم کی تفسیر، احادیث کی تشریح، کلام حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت مصلح موعودؓ کی کتب کے علاوہ عربی اور فارسی کے بنیادی قواعد سکھانے کا بھی اہتمام کرتے۔ مختلف دعائیں بھی زبانی یاد کرواتے۔ ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ کارکنان کا علمی معیار بلند ہو ۔جب میری ٹرانسفر آپ کے دفتر ہوئی تو مَیں نے بی اے کیا ہوا تھا۔ آپ کے ہمّت دلانے پر مَیں نے ایم اے کرلیا۔ بعد میں بھی مجھے تحریک کرتے رہے کہ کسی اَور مضمون میں بھی ایم اے کرلوں۔
آپ نہایت محنتی شخص تھے۔ باوجود اتنی عمر ہونے کے بہت محنت کرتے تھے لیکن اکثر یہی اظہار کرتے تھے کہ اب پہلے کی طرح محنت نہیں ہوتی۔ بتایا کرتے تھے کہ ربوہ کے ابتدائی دنوں میں جب آپ کی رہائش چنیوٹ میں تھی تو آپ صبح سویرے اٹھ کر نہ صرف گھر کے کام کیا کرتے بلکہ سائیکل پر چنیوٹ سے دفتر آتے اور دوپہر کو واپس جاتے۔ پھر شام کو دوبارہ سائیکل پر ربوہ آکر فٹ بال کی گیم کیا کرتے اور رات کو واپس چنیوٹ جاتے۔
آپ مجلس مشاورت کے لئے بہت محنت کرکے تیاری کیا کرتے۔ گزشتہ پانچ سالوں کی تجاویز، سفارشات او رحضور کی منظوریاں نکلواتے اور ان کا مطالعہ کرکے مجلس مشاورت میں شامل ہوتے تھے۔ آپ کے پاس ایک کاپی ہوتی تھی جس میں مجلس مشاورت کی تمام کارروائی نوٹ کیا کرتے تھے ۔
آپ کی لندن میں 1985ء میں اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔ہرنیا کا آپریشن ہوا۔بیرون ملک دورہ جات میں دو مرتبہ شدید بیمار ہوئے ۔ایک حادثے میں آپ کا کولہا فریکچر ہوا لیکن آپ نے ان تمام بیماریوں کا نہایت جوانمردی اور ہمت سے مقابلہ کیا ۔آخر دم تک آپ کے چہر ہ پر کوئی مایوسی نہ تھی۔ وفات سے چند ماہ پہلے کے علاوہ کبھی آپ کو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ بہت ہمت اور حوصلے والے تھے۔
آپ عمدہ اور صاف ستھرا لباس پہنتے تھے۔ کہا کرتے کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ایک واقف زندگی پر اللہ تعالیٰ کے کتنے انعامات ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہا کرتے کہ کوشش کریں کہ نماز کے لئے صاف ستھرا لباس ہو۔رات کو سونے والے لباس میں فجر کی نماز پر نہیں جانا چاہیے ۔ دوسروں کو تلقین کیا کرتے تھے کہ اپنی ظاہری صفائی اور خوبصورتی کی طرف توجہ دیں، کپڑے استری ہوں، جوتا پالش ہو، داڑھی کا خط بنایا ہو وغیرہ۔
چودھری صاحب کو خدا تعالیٰ نے کمال کا حافظہ دیا تھا۔ کسی ڈرافٹ یا چٹھی میں کسی لفظ کا اضافہ کیا ہوتا تو کافی عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انہیں یاد ہوتا تھا۔ خلفاء کے ارشادات من و عن یاد ہوتے۔حافظہ کو تیز کرنے کا یہ نسخہ بھی بتایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا قصید ہ ’’یاعین فیض اللہ والعرفانٖ‘‘ یاد کرنا چاہیے۔ اپنے بچوں کو بھی اس پر عمل کروایا اور ایک چارٹ پر پورا قصیدہ لکھوا کر گھر میں آویزاں کیا ہوا تھا۔
اپنی زندگی کے ایسے واقعات سناتے جن سے پتہ چلتا کہ کسی واقف زندگی کے ساتھ خداتعالیٰ کا کیا سلوک ہوتا ہے۔ بتایا کرتے تھے کہ ہمارا اصل ٹائٹل واقف زندگی ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی وہ رؤیا جو حضورؒ نے اپنے ایک خطبہ میں بیان فرمائی تھی ، اُس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے کہ حضورؒ نے یہ نہیں فرمایا کہ وکیل المال ہیں بلکہ واقف زندگی فرمایا۔ کہا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے تھے کہ اپنے نام کے ساتھ واقف زندگی لکھا کریں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ ایک واقف زندگی پر اللہ تعالیٰ کے کتنے فضل ہیں۔ چنانچہ آپ بھی ایسا ہی کرتے۔
بےشک وہ دفتر کے ڈسپلن کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے لیکن ان کا کارکنان کے ساتھ دوستانہ ماحول ہوتا تھا۔ صبح دفتر میں داخل ہوکر اونچی آواز میں سلام کرتے اور کھڑے ہوکر سارے دفتر کا جائزہ لیتے اور کسی نہ کسی کارکن سے کوئی نہ کوئی ہنسی مذاق بھی کرتے ۔اگر کسی کارکن کی غفلت پر ڈانٹتے تو دفتری ٹائم ختم ہونے سے پہلےکسی نہ کسی بہانے سے اس کی دلجوئی کردیتے۔ آپ کی وفات پر کئی کارکنان اس طرح زارو قطار روئے جیسے ان کا کوئی بہت ہی قریبی وفات پاگیا ہے۔ جب کوئی کارکن آپ کا خواہ چھوٹے سے چھوٹا ذاتی کام ہی کرتا تو شکریہ ضرور ادا کرتے اور دعا دیتے۔ ہر عید پر کارکنان کو عیدی دیتے، سفیدپوش افراد اور پرانے دوستوں کو راشن پیک بنا کر تحفۃً بھجواتے۔ عیدالاضحیہ پر گوشت بھجواتے۔
کسی شخص میں کوئی چھوٹی سی خوبی بھی ہوتی تو اس کا برملا اظہار کرتے۔ خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے۔ جب کوئی بات سمجھاتے تو ساتھ کوئی مزاحیہ بات یا لطیفہ سنا دیا کرتے ۔ اس بذلہ سنجی کے ساتھ ساتھ آپ ایک علمی شخصیت تھے۔ دینی کتب کا مطالعہ روزمرہ کاموں میں سرفہرست تھا۔
وفات سے دو دن پہلے ڈاک چیک کی اور کارکنان کے گندم فارم تھے جوساتھ لے گئے کہ یہ گھر جا کر دستخط کرلوں گا۔ چند دن بعد جلسہ یوم مسیح موعودؑ میں آپ کی تقریر بھی تھی۔ جمعہ والے دن کافی محنت سے تقریر تیار کرتے رہے، اسی شام طبیعت خراب ہوگئی اور اگلے روز وفات ہوگئی۔ آپ کے والد حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ کو تادم آخر خدمت کی توفیق ملی تھی اور اپنے لئے بھی یہی دعا کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں