محترم چودھری محمد مالک صاحب چدھڑ شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍نومبر 2010ء میں مکرم پروفیسر محمد شریف خان صاحب نے اپنے مضمون میں محترم چودھری محمد مالک صاحب چدھڑ کا ذکرخیر کیا ہے جو سانحہ لاہور میں شہید کردیئے گئے۔

پروفیسر محمد شریف خان صاحب

گکھڑمنڈی ضلع گو جرانوالہ کی احمدیہ تا ریخ میں چدھڑ خاندان نمایاں رہا ہے۔ ان کے جدّ چوہدری نواب خان جھنگ میگھیانہ میں سکونت پذیر تھے۔ اُن کی شادی سیالکوٹ کے ایک ا حمدی گھرانے میں ہوئی تو وہ بھی احمدی ہو گئے جس پر ان کے بھائیوں نے ایک سکھ کو انعام کا لالچ دے کر اُن کو مارنے کی کوشش کی۔ چو دھری صاحب کو خداتعا لیٰ نے دشمن کے وا ر سے بچا لیا تو مخدوش حالات کے پیش نظر اُن کا سارا خاندان ہجرت کر کے گکھڑ آ بسا جہاں کاشتکاری اور اجناس کی آڑھت کرنے لگے۔ اُن کے پانچ بیٹوں میں سب سے چھوٹے محترم چوہدری محمد مالک صاحب شہید تھے۔
1952ء میں ہمارا گھرانہ بھی گکھڑ منتقل ہوگیا۔ اباجی (ڈ اکٹر حبیب اللہ خا ن صاحب ابوحنیفی مرحوم) وہاں کے سیکر ٹری مال مقرر ہوئے۔ ا حبا بِ جماعت سے رفتہ رفتہ شناسائی ہوتی گئی جو اخوّت کے مضبوط رشتہ میں تاحال قا ئم دا ئم ہے۔ ان میں ایک دلآویز شخصیت چوہدری محمد مالک صاحب کی تھی۔ متدین، نہایت شریف النفس اور شستہ طبیعت بزرگ تھے۔ خوبصورت چہرہ پرخشخشی ریش، وجد آفرین مسکراہٹ، آنکھوں میں محبت ہر وقت رہتی تھی۔ طبیعت میں ایک خاص قسم کا ٹھہراؤ تھا۔ آواز دھیمی اور وجد آ فرین تھی۔
آپ ہر معاملہ کو بڑی خوش خلقی اور متا نت سے حل فرماتے۔ نماز فجر کے بعد تفسیرِ کبیر اور حضرت مسیحِ موعودؑ کی کتب کا درس نہایت دلنشین طریق اور پُراثر آواز میں دیتے کہ ان درسوں کی حلاوت نصف صدی کے بعد بھی ابھی تک مجھے محسوس ہو رہی ہے۔ آپ کا اپنے چچاؤں کے ساتھ زرعی کاروبار مشترک تھا۔ اختلافات لازم ا ٹھتے تھے۔ آپ کا دلنشین طرزِ استدلال ان تمام معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ہمیشہ مدد گار ثابت ہوتا۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 2010ء میں شہید مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’چوہدری محمد مالک صاحب چد ھڑ شہید ابن مکرم چو ہدری فتح محمد صاحب شہید مرحوم کے آباؤاجداد گکھڑ منڈی کے رہنے وا لے تھے، وہاں سے گو جرانوالہ اور پھر لا ہور شفٹ ہو گئے۔ان کی پیدائش سے قبل ہی ان کے وا لد صاحب وفات پا گئے تھے۔ میٹرک میں پڑھتے تھے کہ والدہ نے بازو میں پہنی ہوئی سو نے کی چوڑی اتار کر ہاتھ میں دے دی کہ جاکر پڑھو۔ مَرے کالج سیالکوٹ سے بی اے کیا۔ سپرنٹنڈٹ جیل کی نو کری ملتی تھی لیکن نہیں کی بلکہ زمیندارہ کر تے رہے۔ اسی سے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 93 سال تھی اور مو صی بھی تھے۔ اب اس عمر میں جانا تو تھا ہی لیکن اللہ تعا لیٰ نے آپ کو یہ رتبہ عطا فرمایا۔ مسجد نور میں ان کی شہا دت ہوئی۔ اہل خانہ بتا تے ہیں بڑھاپے کے وجہ سے بھولنے کے عادت تھی جس کی و جہ سے سات آٹھ جمعے چھوڑے اور28 مئی کو جمعہ پر جا نے کی بہت ضد کررہے تھے۔ ان کی بہو بتا تی ہیں کہ ان کو کہا گیا کہ با ہر موسم ٹھیک نہیں، آندھی چل رہی ہے اس لئے آپ جمعہ پر نہ جا ئیں۔ بچوں کی بھی یہی خوا ہش لیکن نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے تیار ہوکر گھر سے چلے گئے۔ عموماً مسجد کے صحن میں کرسی پر بیٹھ کر نماز جمعہ ادا کر تے تھے۔ ہمیشہ کی طرح سانحہ کے روز بھی صحن میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور حملہ کے شروع میں ہی گو لیاں لگنے سے شہادت ہو گئی۔بہت امن پسند تھے کبھی کسی سے زیادتی نہیں کی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب بہت شوق سے پڑھتے تھے اورگھر والوں کو بھی تلقین کر تے تھے۔ان کے صاحبزادے داؤد احمد صاحب بتاتے ہیں جب میں نے ایم اے اکنامکس پا س کیا والد صاحب سے ملازمت کی اجازت چا ہی تو انہوں نے جواب دیا کہ میری نوکری کر لو۔ میں نے کہا وہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا تم با قاعدہ دفتر کی طرح تیار ہوکر صبح نو بجے آنا، درمیان میں وقفہ بھی ہوگا اور شام پانچ بجے چھٹی ہو جایا کرے گی۔ اور یہاں میز پر بیٹھ جاؤ اورحضرت مسیح موعودؑ کی کتا بیں پڑھا کرو، اور اپنی نو کری سے جتنی تنخواہ ملنے کی تمہیں امید ہے اتنی تنخواہ میں تمہیں دے دیا کروں گا۔ تو کتابیں پڑھانے کے بعد اس نو کری سے فارغ کیا۔ تو بچپن سے لے کر شادی تک بچوں کی اس طرح تر بیت کی۔ اذان کے وقت سب بچوں کے دروازے کھٹکھٹا تے۔ اور جب تک انہیں اٹھا نہیں لیتے تھے چھوڑ تے نہیں تھے۔ اور پھر وضو کر واکر گھر میں باقاعدہ نماز ہوتی۔ بچوں کی تربیت کے لئے انہیں کبھی نہیں مارااور لڑکے کہتے ہیں ہمیں بھی یہی فلسفہ سمجھا تے تھے کہ بچوں کے لئے دعا کر نی چاہئے، یہی ان کی ہمدردی ہے اور مار پیٹ سے تر بیت نہیں ہو تی۔ کہتے ہیں جب بھی رات کو میری آنکھ کھلتی مَیں نے رو رو کر انہیں اپنی اولاد کے لئے دعائیں ہی کر تے ہو ئے دیکھا ہے۔ 1974ء میں لڑکے کہتے ہیں ہم سیٹلا ئٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں تھے ۔ حالات خراب ہو نے پر کافی احمدی احباب ہمارے گھر اکٹھے ہو گئے۔اور ڈیڑھ دو ماہ ان کا کیمپ ہمارے گھر کے پا س تھا۔چنانچہ ان سب کی بہت خدمت کی۔ بہت دیا نتدار تھے ، جھوٹ تو منہ سے نکلتا نہیں تھا۔ ہمیشہ سچ بو لا اور سچ کا ساتھ دیا اور سارے خاندان کی خود کہہ کر وصیت کروائی‘‘۔
اس سے قبل آپ کے ایک چچا چوہدری امانت علی صاحب مر حوم کے ہونہار بیٹے مبشر احمد کو بھی احمدیت پر جان نثار کر نے کا فخر حا صل ہوا۔ وہ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے طا لب علم تھے۔ موسم گرما کی چھٹیوں میں اپنے گھر گکھڑ آ ئے ہو ئے تھے کہ ایک شقی القلب نے چھری سے وار کر کے شہید کر دیا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں