محترم چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 30 نومبر 2018ء)

بشیر احمد رفیق خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ11؍اکتوبر 2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم بشیر احمد رفیق صاحب نے ذاتی یادداشتوں کے حوالہ سے محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 1945ء میں ایک دن خدام الاحمدیہ کے مرکزی دفتر کے سرسبز لان میں اُن مبلغین کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی جو یورپین ممالک میں بھجوائے جا رہے تھے۔ سٹیج پرمبلغین سبز پگڑیاں پہنے ہوئے تشریف فرما تھے۔ مَیں نے محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب کو پہلی مرتبہ وہاں دیکھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تشریف لاکر ایک ولولہ انگیز خطاب فرمایا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ خواہ ہمیں کتنی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، ہم انشاء اللہ احمدیت کا جھنڈا یورپ میں گاڑیں گے اور یورپ کو احمدیت کی آغوش میں لا کر ہی دم لیں گے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ یہ مبلغین یورپ کی فتح میں ہر اول دستہ کا کام دیں گے۔ غالباً دسمبر 1945ء میں مبلغین کا یہ قافلہ قادیان ریلوے سٹیشن سے عازمِ یورپ ہُوا۔ ایک کثیرتعداد نے نعرہ ہائے تکبیر کی گونج میں ان مجاہدین کو رخصت کیا گیا۔ اِن مبلغین اور عوام کی آنکھیں اشکبار تھیں۔
خاکسار نے تعلیم الاسلام کالج لاہور سے 1953ء میں بی اے کیا اور پھر جامعۃ المبشرین میں داخل ہوکر 1958ء میں شاہدؔ کا امتحان پاس کیا۔ اُن دنوں جامعہ سے کامیاب ہونے والے طلباء ایک انٹرویو بورڈ کے سامنے پیش ہوتے تھے جو فیصلہ کرتا تھا کہ کس کو تحریکِ جدید کے سپرد کیا جائے اور کون صدرانجمن احمدیہ کے حصہ میں آئے۔ میں جس بورڈ کے سامنے پیش ہوا اس میں محترم چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب شامل تھے اور آپ کی تجویز پر مجھے تحریک جدید میں بھجوادیا گیا۔
جب مجھے لندن بھجوانے کا فیصلہ ہوا تو اُن دنوں پہلی دفعہ بیرونِ ممالک جانے والے مبلغین کے ساتھ فیملی نہیں بھجوائی جاتی تھی۔ مَیں نے دعاؤں اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں درخواستوں کے ذریعہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت حاصل کر لی اور ہم دونوں میاں بیوی تیاریوں میں لگ گئے۔
روانہ ہونے سے چند دن قبل مجھے محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے بلاکر فرمایا کہ لندن سے پیغام موصول ہوا ہے کہ ہمارا بجٹ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ بشیر احمد رفیق بمع فیملی یہاں آئے اس لئے فی الحال انہیں اکیلے بھجوایا جائے۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ تمہیں اکیلے جانا پڑے۔ مَیں اُن کے دفتر سے نہایت پریشانی کی حالت میں باہر نکلا تو سڑک پر محترم باجوہ صاحب سائیکل پر سوار اپنے دفتر کو تشریف لے جا رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو سائیکل سے اتر کر میرے چہرہ سے ٹپکتی ہوئی پریشانی کی وجہ پوچھی۔ خاکسار نے ساری بات بتائی تو آپ مجھے ساتھ لے کر حضرت میاں صاحب کے پاس آئے اور میری بات کا حوالہ دے کر فرمایا کہ میں لمبے عرصہ تک وہاں امام رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اِن کی فیملی کے وہاں جانے سے بجٹ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ نیز ان کے وہاں جانے کی صورت میں لازمًا چندہ جات بڑھیں گے۔
محترم باجوہ صاحب نے میرا کیس اس قدر مدلّل طور پر پیش کیاکہ حضرت میاں صاحب نرم پڑ گئے۔ محترم باجوہ صاحب نے عرض کیا کہ آپ انگلستان مشن کا بجٹ منگوائیں مَیں ثابت کردوں گاکہ اسکی فیملی کے جانے سے بجٹ پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ حضرت میاں صاحب نے وکالتِ مال سے بجٹ منگوایا۔ محترم باجوہ صاحب نے تفصیل سے یہ ثابت کیا کہ وہاں ایک مربی کی فیملی کیلئے بجٹ میں گنجائش موجود ہے۔ اس طرح میری بیوی کے میرے ہمراہ جانے میں حائل رکاوٹ دُور ہوگئی۔
1970ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اس عاجز کو انگلستان سے واپس بلا کر نائب پرائیویٹ سیکرٹری مقرر فرمایا تو محترم باجوہ صاحب پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ میں بہت گھبرایا ہوا تھا کہ اتنی اہم ذمہ داری میں کیسے نباہ سکوں گا۔ محترم باجوہ صاحب نے میری رہنمائی کی اور مجھے سارا کام سمجھایا۔ چند دنوں کے بعد آپ کو ناظر زراعت مقرر کر دیا گیا اور خاکسار ان کی جگہ پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوا۔ میری گھبراہٹ اور پریشانی کو دیکھتے ہوئے وہ مجھے اپنے دفتر لے گئے اور چند گھنٹے لگا کر مجھے تفصیل سے ہدایات دیں۔ حضورؒ کے طریق کار سے آگاہ کیا۔ دفتر کے عملہ کے بارہ میں بیش بہا معلومات فراہم کیں اور فرمایا اللہ پر توکل کر کے اپنے کام کا آغاز کرو۔ جہاںکوئی مشکل پیش آئے فوراً مجھ سے رابطہ کر کے مشورہ کر لیا کرو۔
ربوہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ روزانہ بعد نماز عصر اپنی زمینوں پر ’’نصرت آباد‘‘ تشریف لے جایا کرتے تھے اور وہاں دو تین گھنٹے جائزہ لے کر مزارعین کو ہدایات جاری فرماتے تھے۔ خاکسار اس دوران قافلہ کے لئے چائے پانی وغیرہ کے انتظامات کرتا تھا۔ حضور روزانہ مجھے چند بزرگان کی فہرست دیا کرتے تھے تا میں اُنہیں حضورؒ کی طرف سے شام کی محفل کے لئے مدعو کروں۔ اس فہرست میں محترم باجوہ صاحب مستقلاً شامل ہوتے تھے۔ حضورؒ زمینوں پر کاشت وغیرہ کے سلسلہ میں محترم باجوہ صاحب سے مشورہ کرتے تھے اور پھر ہدایات جاری فرماتے تھے۔ مَیں نے یہ محسوس کیا کہ حضور کو باجوہ صاحب سے بہت محبت ہے۔
مَیں ڈیڑھ سال پرائیویٹ سیکرٹری رہنے کے بعد دوبارہ بطور امام مسجد فضل لندن روانہ ہوا۔ مسجد فضل کے قریب روٹری کلب آف وانڈزورتھ کے اجلاسات ہوا کرتے تھے۔ حضرت خانصاحب فرزند علی خان صاحب سے لے کر خاکسار تک تمام امام صاحبان اس کے ممبر رہے تھے۔ کلب میں ایک عمر رسیدہ انگریز Mr. Raymond King ہوا کرتے تھے۔ یہ بہت علمی آدمی تھے۔ ساری عمر محکمہ تعلیم میں گزاری تھی اور ایک سکول سے ہیڈماسٹر ریٹائر ہوئے تھے۔ یہ اکثر مجھے سابقہ امام صاحبان کے بارہ میں بتایا کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ مجھے محترم باجوہ صاحب کے روٹری کلب کا دَور اچھی طرح یاد ہے۔ وہ نہایت خوش شکل اور اچھے قدوقامت کے انسان تھے۔ ان کے جسم پر سُوٹ بہت سجتا تھا۔ اُن کو انگریزی تمدّن، طرزِ بودوباش اور انگلستان کی تاریخ پر عبور حاصل تھا۔ نہایت شستہ انگریزی بولتے تھے اور کلب میں بے حد مقبول تھے۔
مکرم عبدالعزیز دین صاحب 1928ء میں لندن آئے تھے۔ ایک دن محترم باجوہ صاحب کا ذکرخیر آگیا تو انہوں نے فرمایا کہ محترم باجوہ صاحب نہایت غیرت مند انسان تھے۔ خلافت احمدیہ سے عشقیہ تعلق رکھتے تھے۔ اطاعت ان کا خاصہ تھا۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ میلروز روڈ (Melrose Road) کے ایک فلیٹ میں ایک فیملی کرایہ دار ہے۔ جس نے پچھلے چھ ماہ سے فلیٹ کا کرایہ ادا نہیں کیا اور اس طرح سلسلہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ مَیں نے کئی دوستوں کو اُن کی طرف بھیجا ہے کہ وہ انہیں سمجھائیں اور کرایہ ادا کرنے پر آمادہ کریں۔ لیکن وہ بجائے اپنی اصلاح کرکے کرایہ ادا کرنے کے ان دوستوں سے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ تم میرے ساتھ چلو تاکہ اس کو سمجھائیں۔ محترم عزیز دین صاحب فرمانے لگے کہ میں باجوہ صاحب کے ساتھ اس فلیٹ پر گیا اور گھنٹی بجائی تو کرایہ دار باہر آ یا اور حسب سابق بدتمیزی کا مظاہرہ کرنے لگا۔ محترم باجوہ صاحب جو عام طور پر پُر سکون طبیعت کے مالک تھے، اُن کا رنگ سرخ ہو گیا۔ اور آپ نے بڑی گرج دار آواز میں فرمایا: دیکھو! اگر یہ فلیٹ میرا ہوتا تو میں بخوشی تمہیں اس میں بغیر کرایہ کے رہنے دیتا لیکن یہ سلسلہ عالیہ کی جائداد ہے اور مَیں انگلستان میں سلسلہ کی جائداد کا نگران ہوں اور کسی صورت میں بھی سلسلہ کا نقصان برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لئے مَیں تمہیں الٹی میٹم دیتا ہوں کہ اگر کل تک تم نے کرایہ ادا نہ کیا۔ تو میں خود آکر تمہارا سامان باہر پھینک دوں گا۔ آپ نے یہ باتیں کچھ اس انداز میں کیں کہ کرایہ دار نے وعدہ کیا کہ اگلے روز تک ساری رقم ادا کر دے گا۔

محترم باجوہ صاحب جب تک انگلستان میں رہے آپ کو دمہ کی شدید شکایت رہی۔ آپ اس کا علاج کروا رہے تھے کہ ایک دن وکالت تبشیر سے حکم موصول ہوا کہ حضورؒ نے آپ کی واپسی کا ارشاد فرمایا ہے اس لئے آپ فوراً پاکستان کے لئے روانہ ہو جائیں۔ محترم باجوہ صاحب نے اُسی وقت جاکر اپنی سیٹیں بُک کروا لیں۔ شام کو جب ایک دوست ملنے آئے تو باجوہ صاحب نے اُن کو تبشیر سے آمدہ حکم اور سیٹیں بُک کرانے کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اتنی کیا جلدی تھی، آپ کا علاج ہو رہا ہے، آپ کی فیملی پاس ہے، بچوں کو مڈٹرم میں سکول سے اٹھانا بھی مناسب نہیں۔ آپ تبشیر سے کچھ عرصہ کی مہلت بھی تو لے سکتے تھے۔ محترم باجوہ صاحب نے فرمایا: جب حضور نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ فوراً واپس آجاؤ تو اس میں کسی قسم کی چون و چرا کی گنجائش کہاں ہے! اور مَیں نے تو اپنی سیٹیں بُک کرانے میں جلدی اس لئے کی ہے تاکہ دوست غلط مشورے دے کر میرے عزم کو متزلزل نہ کریں۔ خلیفۂ وقت کا حکم باقی سب کچھ پر حاوی ہے، بھلا مَیں ایک واقفِ زندگی ہو کر ان کے حکم سے سرتابی کیسے کرسکتا تھا۔
1980ء میں مَیں نے ربوہ میں ایک آرام دہ مکان بنوایا۔ ایک دن دروازہ پر دستک ہوئی۔ مَیں نے دروازہ کھولا تو باہر ایک معزز شخص کو کھڑا پایا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اسسٹنٹ کمشنر ہیں اور ربوہ ان کے حلقہ میں شامل ہے۔ میں انہیں اندر لے گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کبھی انگلستان نہیں گئے۔کسی نے بتایا کہ انگلستان میں ایک لمبے عرصہ تک قیام پذیر ہونے کے بعد ایک شخص یہاں رہتا ہے تو مجھے شوق ہوا کہ مَیں تم سے ملوں اور انگلستان کے بارہ میں معلومات حاصل کروں۔ اس کے بعد جب بھی وہ دَورہ پر ربوہ آتے تو ضرور میرے گھر تشریف لاتے۔ ایک دو مرتبہ اپنی فیملی کو بھی ساتھ لائے۔ ان دنوں باجوہ صاحب ناظر امور عامہ تھے۔ مَیں اُنہیں ان ملاقاتوںکی اطلاع دیتا تھا تا کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ دو ایک مرتبہ باجوہ صاحب نے بھی کمشنر صاحب کی اپنے گھر پر دعوت کی۔ وہ باجوہ صاحب کے اخلاقِ عالیہ اور مہمان نوازی سے بہت متأثر تھے۔
انہی دنوں اچانک ایک دن باجوہ صاحب کے گھر پر چھاپہ پڑا اور اُن کو گرفتار کر لیا گیا۔ F.I.R. اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے درج کرائی تھی اور اس میں لکھا گیا تھا کہ باجوہ صاحب کے گھر سے ضبط شدہ لٹریچر برآمد ہوا ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔ باجوہ صاحب ناظرامور عامہ کے علاوہ سر گودھا کے ایک متموّل زمیندار خاندان سے تھے۔ اپنے علاقہ میں بہت اثرو رسوخ رکھتے تھے۔ ان کے تمام بھائی فوج اور انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ سراسر جھوٹے اس مقدمہ سے کچھ عرصہ کے بعد باجوہ صاحب کو ضمانت پر رہائی ملی تو آپ کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اگلے ہی دن آپ میرے ہاں تشریف لائے اور اپنے قید و بند کے قصے سناتے رہے۔ پھر فرمایا کہ اسسٹنٹ کمشنر سے کسی وقت معلوم تو کرو کہ اس نے میرے خلاف یہ جھوٹا مقدمہ کیوں بنایا۔ چنانچہ دو چار دن کے بعد مَیں چنیوٹ جاکر اے سی صاحب کے بنگلہ پر حاضر ہوا۔ وہ مجھے علیحدگی میں بٹھاکر کہنے لگے کہ مجھے معلوم ہے آپ کیوں میرے پاس آئے ہیں۔ دراصل ایک دن مجھے کمشنر صاحب کی طرف سے ایک لکھی لکھائی F.I.R. ملی جس میں درج تھا کہ میں نے مکرم باجوہ صاحب کے گھر پر چھاپہ مار کر اُن کے گھر سے ضبط شدہ لٹریچر برآمد کیا ہے۔ میں F.I.R. پڑھ کر ششدر رہ گیا۔ میں نے توکوئی چھاپہ نہیں مارا تھا۔ پھر باجوہ صاحب میرے محسن اور دوست بھی تھے۔ میں ان کے متعلق اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتا تھا۔ چنانچہ میں فوراًجھنگ میں کمشنر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور جھوٹے F.I.R. پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ کمشنر صاحب نے کہا: یہ احکام بالا حکام کی طرف سے آئے ہیں۔ آپ یا تو ان پر دستخط کر کے باجوہ صاحب کو گرفتار کریں یا پھریہ سمجھیں کہ آپ کی ملازمت ختم ہے۔ مَیں سوچ میں پڑ گیا۔ بالآخر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے اپنی نوکری بچانی چاہئے خواہ اس کے لئے اپنے ایک مشفق دوست کی بھی قربانی دینی پڑے۔ چنانچہ میں نے دستخط کردئیے اور اگلے دن باجوہ صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ اُس دن سے لے کر آج تک مَیں شرم کے مارے ربوہ نہیں جاسکا۔ میں باجوہ صاحب سے نہایت شرمندہ ہوں۔ آپ براہ کرم انہیں کہیں کہ مجھے معاف کر دیں۔ مَیں نے اپنے ضمیر کے خلاف یہ فیصلہ صرف نوکری چلے جانے کے خطرہ سے کیا۔
1970ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ یورپ کے دورہ پر تشریف لائے تو محترم باجوہ صاحب بھی بطور پرائیویٹ سیکرٹری قافلہ میں شامل تھے۔ حضورؒ سپین بھی تشریف لے گئے۔ جہاز میں حضورؒ کی سیٹوں کے عین پچھلی سیٹوں پر مکرم باجوہ صاحب اور خاکسار بیٹھے تھے۔ جب جہاز میڈرڈ کے قریب پہنچا تو اچانک حضورؒ نے پیچھے مُڑ کر ہمیں فرمایا:’’مجھے تو طارق کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ تم بھی سن رہے ہو؟‘‘ حضورؒ پر اس وقت رقّت طاری تھی اور اونچی آواز میں دعاؤں کا ورد کر رہے تھے۔ ہم دونوں بھی ان دعاؤں میں شامل ہوگئے۔
اسی قیام کے دوران حضورؒ بمع قافلہ لیک ڈسٹرکٹ (Lake District) کی سیاحت کے لئے بھی تشریف لے گئے تو قافلہ کی ایک کار کو پھسلنے سے حادثہ پیش آیا۔ اس کار میں مکرم باجوہ صاحب بھی سوار تھے اور آپ کو خاصی چوٹ آئی۔ آپ کو قریبی ہسپتال پہنچایا گیا۔ اگلے دن حضورؒ کے ارشاد پر مَیں ہسپتال گیا تو آپ کو پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور آپ پر حادثہ کا خاصہ اثر تھا۔ مَیں نے حال پوچھا تو جواب دیا”As good as can be” (یعنی بالکل ٹھیک ہوں)۔ اور فوراً پوچھا کہ حضور خیریت سے ہیں ؟ مَیں اُن کی بہادری پر حیران تھا کہ اس قدر چوٹیں لگنے کے باوجود وہ اپنا حال ٹھیک بتارہے ہیں اور حضورؒ کا فکر ہے۔

محترم باجوہ صاحب کو سلسلہ کے اموال اور جائداد کی حفاظت کا خاص خیال رہتا تھا۔ انہوں نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ ربوہ میں سائیکل پر سوار ہوکر دفتر تشریف لاتے تھے حالانکہ چاہتے تو ذاتی موٹر کار خرید سکتے تھے۔ جب آپ امام مسجد فضل لندن تھے تو اُنہی دنوں آپ کے چھوٹے بھائی پاکستان سے ہجرت کر کے لندن آگئے۔ آپ نے انہیں اپنے فلیٹ کے ایک کمرہ میں ٹھہرایا۔ چند دن بعد اُن کو ملازمت مل گئی تو آپ نے اُنہیں فرمایا: جب تک تمہارے پاس ملازمت نہ تھی تو بحیثیت چھوٹے بھائی کے میرے گھر پر رہ سکتے تھے اور یہ تمہارا حق تھا۔ اب جبکہ تمہیں ملازمت میسر آ گئی ہے تو یہ ہرگز مناسب نہیں کہ تم سلسلہ کے فلیٹ میں رہ سکو۔ اس لئے یا تو باہر اپنی رہائش کا انتظام کرو یا پھر جماعت کو باقاعدہ اس کا کرایہ ادا کرو۔ چنانچہ جب تک وہ مشن ہاؤس کے کمرہ میں مقیم رہے تو کرایہ ادا کرتے رہے۔
1979-80ء میں مجھے ایک ابتلا کا سامنا تھا۔ جس کی وجہ سے مَیں بے حد پریشانی اور تکلیف کا شکار تھا۔ ایک دن باجوہ صاحب تشریف لائے۔ کچھ دیر بیٹھے رہے پھر اُٹھ کر مجھے گلے سے لگایا اور دیر تک تسلّی دیتے رہے۔ فرمایا: دیکھو ابتلا مومنین کو ہی آتے ہیں۔ جو ثابت قدم رہتے ہیں وہ اللہ کا قرب پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور جن کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں وہ اپنی دنیا و آخرت کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ آپ کی باتوں سے مَیں نے محسوس کیا کہ گویا ایک بھاری بوجھ میرے ذہن سے اُترچکا ہے۔
باجوہ صاحب خلافتِ احمدیہ کے جاںنثاروں میں سے تھے۔ آپ جب بھی حضرت خلیفہ ثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے دونوں ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے رہتے اورجب تک حضورؒ بیٹھنے کے لئے ارشاد نہ فرماتے آپ دست بستہ کھڑے رہتے۔ حضورؒ کو بھی آپ سے بے حد محبت تھی۔ اکثر مشورہ کے لئے بلا لیتے، موسم آتا تو آموں کی ٹوکریاں بھجواتے۔ آپ کا گھر قصرِ خلافت سے چند منٹ کے فاصلہ پر تھا اور آپ لنچ بریک میں اپنے گھر جاتے تو شاید10 منٹ سے زیادہ وقت نہ ملتا۔ لیکن حضرت خلیفہ ثالثؒ کی محبت اور شفقت کے نتیجہ میں دوپہر کا کھاناحضورؒ کے گھر سے آیا کرتا تھا اور یہ سلسلہ میرے پرائیویٹ سیکرٹری رہنے کے آخری دن تک بھی جاری رہا۔ یہ حضورؒ کی شفقت تھی۔
باجوہ صاحب نے اپنے ایک بیٹے چوہدری ظہیر احمد باجوہ کو اعلیٰ تعلیم دلائی اور پھر سلسلہ کے لئے پیش کردیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں