محترم چوہدری عبدالکریم صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍دسمبر 2006ء میں مکرم مولانا محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب نے اپنے والد محترم چوہدری عبدالکریم صاحب کا ذکر خیر کیا ہے۔
آپ لکھتے ہیں کہ میرے والد مکرم چوہدری عبدالکریم صاحب موضع بھامبڑی ضلع گورداسپور کے رہنے والے جٹ ریاڑ زمیندار تھے۔ ستمبر 1931ء میں 78 سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد فوت ہوئے۔ احمدی ہونے سے قبل میرے والد صاحب فرقہ اہلحدیث سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے گائوں میں بہت معزز اور مکرم تھے۔ گائوں کے لوگ اپنے تنازعات کا فیصلہ آپ سے کرایا کرتے تھے۔ رفاہ عامہ کا کام بہت کیا کرتے تھے۔ اتنے پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن چونکہ علماء کے ساتھ کثرت سے اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اس لئے دینی معلومات بہت وسیع تھیں اور پنجابی زبان میں خوب تقریر کر لیا کرتے تھے۔ آپ کی تقاریر میں لفاظی نہیں ہوتی تھی دل سے بات نکلتی تھی۔
آپ نے 1918ء یا 1919ء میں احمدیت قبول کی۔ اس وقت ہم دونوں بھائی چھوٹے تھے۔ والد صاحب ہر جمعہ قادیان آکر پڑھاکرتے۔ ہمارا گائوں قادیان سے پانچ میل کے فاصلہ پر ہے چنانچہ کبھی کبھی ہمیں بھی ساتھ لاتے اور جمعہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات بھی کراتے۔ ایک بار حضورؓ سے عرض کیا کہ حضور مجھے ایک غم لگا رہتا ہے اور وہ یہ کہ میں بوڑھا ہو رہا ہوں اور میرے یہ دو بچے چھوٹے ہیں۔ میں فکرمند رہتا ہوں کہ میرے بعد یہ بچے مبادا دشمنوں کے قابو میں آجائیں۔ حضور نے ہم سے پیار کرتے ہوئے والد صاحب کو تسلّی دی اور دعا کا وعدہ فرمایا۔
والد صاحب نے ہماری بہت اچھی تربیت کی۔ ہمیں درّثمین لادی اور نظمیں یاد کرائیں۔ چنانچہ ایسی چاٹ لگی کہ اِس 92 سال کی عمر میں بھی مجھے حضرت اقدسؑ کے اردو، عربی، فارسی سینکڑوں اشعار زبانی یاد ہیں۔ یا عین فیض اللہ والعرفان کا قصیدہ بھی زبانی یاد ہے اور روزانہ پڑھتا ہوں۔ کلام محمود کی نظمیں اور صحابہ کرام کا بہت سا کلام مجھے ازبر ہے۔ ’’درّعدن‘‘ ازبر یاد ہے۔ حضرت مسیح موعود کی ساری کتب تین بار، ملفوظات ، انوار العلوم کی سولہ جلدیں، تفسیر کبیر، سوانح فضل عمرپانچ جلدیں، تاریخ احمدیت کی 16 جلدیں، خطبات محمود 10 جلدیں، صحاح ستہ، خطبات نکاح یہ علوم کے خزانے پڑھے ہیں ۔ شغل کے طور پر یجروید، ستیارتھ پرکاش، بلھے شاہ کی کافیاں، یوسف زلیخا، بہشتی زیور، بائبل کا مطالعہ بھی کیا ہے مگر قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے!۔
ایک دفعہ جمعہ کی نماز کے لئے والد صاحب ہمیں لارہے تھے۔ راستہ میں سکھوں کا گوردوارہ تھا۔ وہاں ایک سردار نے والد صاحب سے کہا کہ آج ہمارے گوردوارہ میں ہی عبادت کرلیں۔ والد صاحب نے کہا ٹھیک ہے ۔ چنانچہ ہم نے وضو کیا۔ سکھوں کی موجودگی میں میرے چھوٹے بھائی عبدالعزیز نے اونچی اور سریلی آوازسے اذان دی۔ پھر والد صاحب نے پنجابی زبان میں دنیا کی بے ثباتی کے مضمون پر دس پندرہ منٹ خطبہ دیا اور موجود سکھوں نے بھی بڑی توجہ سے تقریر سنی۔ بعدہٗ ہم نے جمعہ کی نماز پڑھی ۔ سکھوں نے خطبہ کی بہت تعریف کی۔
ہمارے والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ ہم دونوں بھائی علم حاصل کریں اور دین کے خادم بنیں۔ چنانچہ پرائمری کرنے کے بعد آپ نے 1926 ء میں ہمیں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کرادیا۔ ہم روزانہ پیدل آیا جایا کرتے تھے۔ سحری کے وقت گاؤں سے چلتے اور سورج نکلنے پر قادیان پہنچ جاتے۔ اندھیرا ہونے کی وجہ سے والد صاحب دو اڑہائی میل ہمارے ساتھ آیا کرتے تھے۔ ابھی ہم مدرسہ احمدیہ کلاس پنجم میں تھے کہ والد صاحب فوت ہو گئے۔ پھر ہم اکیلے آیا جایا کرتے تھے۔ مدرسہ احمدیہ کی سات کلاسیں پاس کر کے ہم جامعہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوگئے۔ دو سال جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی اور میں نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ مدرسہ احمدیہ اورجامعہ احمدیہ میں اکثر اساتذہ کرام حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ تھے۔ جو صحابہ نہیں تھے وہ بھی اُنہی کے رنگ میں رنگین تھے۔ ان کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا۔ عزم اور ہمت کے پہاڑ تھے اور روشنی کے مینار تھے۔
میں نے مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان بھی پا س کیا۔
میرے والد صاحب علم دوست آدمی تھے۔ گھر میں مختصر سی لائبریری تھی۔ ایک الماری کتابوں کی بھری ہوئی تھی جس میں گلستاں، بوستاں اور تفسیر محمد ی منظوم بزبان پنجابی اور دوسری مذہبی کتب تھیں۔ قرآن مجید کا کافی حصہ سورۃ یوسف اور بہت سی سورتیں یاد تھیں۔ تہجد میں خوب پڑھا کرتے تھے۔ علم حاصل کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ ہمیں کہتے کہ مدرسہ احمدیہ میں آپ حدیث اور جودینی سبق پڑھ کر آئیں وہ مجھے روزانہ پڑھادیا کرو۔
آپ کو حضرت مصلح موعودؓ، قادیان اور اہالیان قادیان کے ساتھ عشق تھا۔ 1926-1925ء میں آپ کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ قادیان والوں کو گنے گارس پلاؤں۔ چنانچہ گنوں کا گڈا بھر کر ہم دونوں بھائیوں کو ساتھ لے کر قادیان لائے۔ یہاں سکھوں کا گنے کرش کرنے کا بیلنا تھا۔ وہاں ہم نے بیل ہانک کر رَس نکالنا شروع کردیا اور ارد گرد کے گھروں میں اعلان کرادیا کہ بیلنے پر آکر رس لے جائیں۔ لوگ برتن لے کر آتے اور بھر کر رَس لے جاتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں