محترم ڈاکٹر خلیل سینگاڈو آف گیمبیا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6 جون 2009ء میں محترم ڈاکٹر خلیل سینگاڈو صاحب آف گیمبیا کا ذکر خیر مکرم منور احمد خورشید صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
گیمبیا میں فرافینی کے مقام پر ایک نہایت ہی بزرگ، تقویٰ شعار، دعا گو اور پانچ وقت نمازوں کے پابند ڈاکٹر خلیل سینگاڈو صاحب کا چند سال پہلے وصال ہوچکا ہے۔ بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی تھے اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ دین کے لئے غیرمعمولی مالی قربانی کرنے والوں میں آپ صف اول کے مجاہدین میں سے تھے۔ لازمی چندہ جات کے علاوہ زکوٰۃ باقاعدہ نصاب کے مطابق ادا کرتے۔ علاوہ ازیں بینک سے جو رقم بطور سود ملتی وہ بھی من و عن اشاعت دین کی مد میں پیش کردیتے تھے۔ فرافینی میں ہماری مسجد مقامی کوششوں سے تعمیر ہورہی تھی۔ مسجد کا ہال تعمیر ہوچکا تھا لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے احاطہ کی چاردیواری نہیں بن رہی تھی۔ ایک دن علی الصبح ڈاکٹر صاحب تشریف لائے اور کہنے لگے چاردیواری ہمیں جلد بنوانی چاہئے کیونکہ جانور مسجد کے احاطہ میں داخل ہو جاتے ہیں جس سے مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ میں نے فنڈز نہ ہونے کا بتایا تو کہنے لگے کہ اس چاردیواری پر جتنا خرچ آئے گا وہ میں اداکروں گا لیکن کسی کو اس کا علم نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ایک خاصا بڑا منصوبہ تھا جسے آپ نے اکیلے ہی مکمل کر دیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 1988 ء میں گیمبیا تشریف لائے۔ پروگرام کے مطابق حضورؓ نے فرافینی تشریف لانا تھا جہاں پر گیمبیا میں حضورؒ کے دورہ کے دوران سب سے بڑااجتماع متوقع تھا۔ اس نسبت سے مختلف احباب کو مختلف فرائض تفویض کئے گئے۔ ڈاکٹر سینگاڈو صاحب کواللہ تعالیٰ نے مالی اعتبار سے پوری فرافینی جماعت سے زیادہ وسعت عطا کی ہوئی تھی ۔علاوہ ازیں ان کا مکان بہت وسیع تھا جس میں سینکڑوں لوگ بیک وقت سما سکتے تھے۔ اس لئے جملہ خور و نوش کے انتظام ان کے سپرد کئے گئے۔ لیکن ایسا اتفاق ہوا کہ جس روز حضورؒ کی آمد کا پروگرام تھا صبح سویرے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اُن کے آبائی گاؤں میں اُن کے بڑے بھائی فوت ہوگئے ہیں اور انہیں ہنگامی طور پر وہاں جانا ہے۔ یہ گاؤں فرافینی سے 40 کلومیٹر دور تھا۔ اس پر میں بہت فکرمند ہوا۔ میری پریشانی دیکھ کر کہنے لگے فکر نہ کریں مَیں ابھی ادھر جا رہا ہوں اور جلد واپس آجاؤں گا۔ آپ اپنے گاؤں گئے، اپنے عزیزوں سے افسوس کیا۔ بھائی کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کئے۔ آپ کے بھائی غیراحمدی تھے لیکن ڈاکٹرصاحب ہی ان کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔اس کے بعد آپ واپس آئے اور حسب معمول اپنے فرائض سرانجام دیئے اور کسی کو احساس تک نہ ہونے دیا کہ ان کے ہاں اتنا بڑاسانحہ پیش آچکا ہے۔
حضورؒ کامیاب پروگرام کے بعد جب آ گے انجوار نامی قصبہ میں تشریف لے گئے جہاں محترم امیر صاحب نے حضور انور کی خدمت میں یہ واقعہ بغرض دعا ذکر کیا۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ آپ نے مجھے وہاں کیوں نہیں بتایا، اب واپسی پر سیدھے اُن کے ہاں جائیں گے ۔ چنانچہ حضور واپسی پر ان کی رہائش گاہ پر تشریف لائے اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ یہ واقعہ جہاں مکرم ڈاکٹر صاحب مرحوم کی خلافت سے محبت اور سلسلہ سے وفا کا دلرُبا نظارہ پیش کرتاہے وہاں خلیفۂ وقت کی افراد جماعت سے محبت اور سلسلہ کے خدام کے لئے بے پناہ شفقت اور رحمت کے جذبات کی بھی عکاسی کرتاہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں