محترم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب (آف کانو۔ نائیجیریا)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11 نومبر 2010ء میں مکرم محمد خالد گورایہ صاحب کے قلم سے محترم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔ قبل ازیں آپ کا مختصر تعارف 7فروری 1997ء کے شمارہ کے الفضل ڈائجسٹ کی زینت بن چکا ہے۔
محترم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کا تعلق ضلع گجرات کے ایک معروف خاندان سے ہے۔ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں آپ کے بیٹے ڈاکٹر انوارالدین صاحب بطور کارڈیالوجسٹ خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ ایک دوسرے بیٹے امریکہ میں ڈاکٹر ہیں۔
محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم احمدیہ ہسپتال کانو کے بانی تھے۔ قبل ازیں آپ فضل عمر ہسپتال ربوہ اور سیرا لیون میں خدمات بجا لا چکے تھے۔سیرالیون میں دمہ کی تکلیف میں مبتلا ہونے کے بعد آپ کو کانو (نائیجیریا) بھجوا دیا گیا جہاں آپ نے ایک پرائیویٹ بلڈنگ کرایہ پر لے کر کلینک کا آغاز کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے معجزانہ شفا کے واقعات کے باعث یہ ہسپتال جلد ہی جماعت کی نیک نامی کے ساتھ خوب شہرت پا گیا۔ پھر کانو شہر کی مشہور شاہراہ پر ایک نہایت ہی موزوں قطعہ زمین خرید کر آپ نے ضرورت کے مطابق عمارت تعمیر کروائی۔ بعد میں یہاں ڈینٹل کلینک بھی شروع کر دیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب کی ہنس مکھ شخصیت اور درد مندانہ دل کی کیفیت نے اہلِ کانو کے دل میں گھر کر لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دُور و نزدیک سے مریض کھچا کھچ اِس ہسپتال کا رخ کرنا شروع ہو گئے اور بڑے سرکاری افسران اور سیاسی لیڈرز یہاں آنے لگے۔ خاص طور پر Amino Kano (نائیجیریا کا بہت بڑا سیاسی لیڈر جس کے نام پر ہی Amino Kano Airport ہے) جب بھی بیمار ہوا ڈاکٹر صاحب مرحوم کے پاس ہی آیا کرتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب اپنے دن کاآغاز سٹاف سمیت دعا سے کیا کرتے تھے۔ آپ اخلاص و وفا کے پیکر تھے۔ ایک مثالی واقف زندگی اور مہمان نوازی کو ایک سعادت سمجھنے والے انسان تھے۔ کئی مہمان مہینوں تک بوجہ مجبوری آپ کے پاس رہے لیکن آپ ہر مہمان سے خندہ پیشانی سے پیش آنے والے اور اُن کا ہر طرح سے خیال رکھنے والے انسان تھے۔ اوپر والی منز ل مہمانوں کے لئے وقف تھی۔ نماز باجماعت کا انتظام کلینک میں ہی ہوا کرتا تھا۔
آپ مبلغین اور واقفین اساتذہ کی آمد سے بہت خوش ہوتے تھے۔ اُن کی ضروریات کاہر طرح سے خیال رکھتے۔اس خدمت میں اُن کی بیگم صاحبہ مرحومہ بھی برابر کی شریک تھیں۔ ہر نئے آنے والے کے ساتھ ایک مادر مہربان کی طرح کانو کی مارکیٹوں میں سار ا سارا دن پھر کر ضروریات زندگی اکٹھی کرکے اپنی طرف سے خرید کر دونوں میاں بیوی دعاؤں کے ساتھ اُن فیملیوں کو اُن کے قصبوں کے لئے روانہ کیا کرتے۔
ہمیں نائیجیریا میں رہتے ہوئے جس چیز یا مدد کی ضرورت پڑتی تھی، نظریں ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کی طرف اٹھتی تھیں۔ ہماری سٹیٹ کے دونوں سکولوں منا اور گوساؤ کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت پڑی اس کے خریدنے، لے کر دینے، تعلقات بنانے، نبھانے اور کام لینے کے تمام گُر ہم نے ان سے ہی سیکھے۔ جب بھی ان کی یاد آتی ہے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں