محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

پاکستان کے پہلے نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارے میں اخبارات کے چند اقتباسات روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13نومبر 2008ء میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
٭ جناب جیون خانصاحب (روزنامہ جنگ کے معروف کالم نگار) اپنے کالم ’’جہاں چناب بہتا ہے‘‘ میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی جھنگ سے محبت کے بارہ میں لکھتے ہیں : جھنگ البتہ اُن کی نس نس میں بسا رہا ۔ماں بولی پر تو مرمٹتے تھے۔ جب بھی پاکستان میں ہوتے یا باہر کسی ’’اپنے ‘‘ سے ملتے تو ٹھیٹھ مقامی لہجہ میں (جسے آباد کار جانگلی ) کہتے ہیں اور جو سرائیکی کی ذرا کرخت شکل ہے بات کرتے۔ ہیئت کذائی بھی نہیں بدلی تھی۔ آخری سالوں میں عاجزی ، انکساری کی حدود کو چھونے لگی تھی … ڈاکٹر صاحب جھنگ کو کبھی نہیں بھولے تھے ۔ نوبیل انعام ملا تو رقم سے جھنگ کا لج میں فزکس کی نئی تجربہ گاہ تعمیر کرائی اورگورنر سے کہہ کر وہاں فزکس میں ایم ایس سی کلاسز کا اجراء کرایا ۔یہ خشت اول تھی آہستہ آہستہ اور مضامین میں بھی ایم اے ‘ایم ایس سی کی تعلیم کی منظوری ملتی گئی۔ (جنگ 23دسمبر 2001ء)
٭ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب مجاہد کامران سے ایک انٹرویو میں سوال ہوا : کوئی ایسی شخصیت جس سے آپ متاثر ہوں ؟
جواب :۔میں سمجھتا ہوں میرے والد کے علاوہ اور لوگوں سے بہت متاثر ہوا ہوں ۔ان میں ایک پروفیسر عبدالسلام ہیں … اُن کا مقام نوبیل انعام یافتہ سائنس دانوں میں بھی بہت بلند ہے۔ ان میں بے پناہ صلاحیتیں تھیں انہیں مشرق ومغرب کی تاریخ پر عبور حاصل تھا۔ وہ ادارہ ساز تھے اور بہت اچھا لکھتے تھے ۔ (جنگ سنڈے میگزین 10فروری 2008ء)
٭ ایک طالب علم نے ڈاکٹر عبدالسلام سے پوچھا کہ کیا مذہب اور سائنس میں تضاد نہیں ؟۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ’’نہیں سائنس اور مذہب دو الگ الگ دنیائوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذہب کا تعلق انسانی سوچ کی اندرونی دنیاسے ہے اور یہ چیز ایمان کو چاہتی ہے جبکہ سائنس کا تعلق بیرونی مادی دنیا سے ہے جس کی بنیاد دلائل پرہے اور اگر ہم یہ یقین رکھیں کہ کائنات خدا نے بنائی ہے تو پھر مذہب اور سائنس میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے ۔ میں ایک سائنس دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پکا مسلمان بھی ہوں کیونکہ میں قرآن کے روحانی پیغامات پر یقین رکھتا ہوں اور یہ قرآن ہی ہے جو ہمیں سائنسی علوم کے ذریعے مظاہر فطرت پر آگاہی بخشتا ہے۔ (گریٹ سائنٹسٹ عبدالسلام صفحہ 45-44)
٭ پاکستان کی قومی اسمبلی 1973ء کے سپیکر صاحبزادہ فاروق علی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے فقط ایک ہی ماہ بعد 2جنوری 1972ء کو ملتان میں بعض ماہرین کا ایک خصوصی اجلاس منعقد کرایا اور اس میں یہ فیصلہ کیا کہ ایٹمی توانائی پاکستان میں پیدا کرنے کا انتظام کیا جائے … اس کانفرنس کے انعقاد سے عین پہلے نوبیل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے مجھ سے ملاقات کی اور مجھے ایک خفیہ فائل تھماتے ہوئے اس کو پوری طرح پڑھ لینے کی خواہش ظاہر کی۔ میرے ڈاکٹر صاحب سے دیرینہ مراسم تھے انہوں نے مجھ سے کہا: فاروق! مجھے معلوم ہے کہ صدر بھٹو سے آپ کے خصوصی تعلقات ہیں وہ آپ کی بات کو بغور سنتے اور مانتے ہیں اور آپ ان سے ہر معاملے پر کھل کر بات کرلیتے ہیں لہٰذا آپ انہیں اس امر پر آمادہ کرلیں کہ وہ ہمیں مطلوبہ فنڈز مہیا کریں اور ہم اپنے ملک میں ہی ایٹمی توانائی پیداکرنا شروع کردیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایٹم بم بھی بنانے لگیں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ 1961ء سے 1972ء تک ہمیں اس مقصد کے لئے فنڈز ہی مہیا نہیں کئے گئے ۔اگر ایسا ہوجاتا تو ہم اب سے بہت پہلے ایٹمی توانائی خود پیدا کرنا شروع کرچکے ہوتے ۔ایٹم بم بھی تیار کرچکے ہوتے ۔‘‘ (جمہوریت صبر طلب صفحہ 254)
٭ پاکستان کے نامور ادیب جناب عبداﷲ حسین سے پوچھا گیا: ’’اسلام کی تشریح کابھی بڑا مسئلہ ہے کہ اس کی تشریح کو ن کرے! علماء کریں؟‘‘۔ جواب ملا :ایک عالم کی دوسرے عالم سے رائے ملتی ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو ہم نے روڑے مارکر پاکستا ن سے نکال دیا اس پر اب غصہ اور رونا نہ آئے تو کیا ہو؟ پاکستان نے اب تک ساٹھ سالوں میں دوبندے پیدا کئے ایک تو ڈاکٹر عبدالسلام اور دوسرے مولانا عبدالستار ایدھی۔ (روزنامہ جنگ سنڈے میگزین -3اگست 2008ء صفحہ 9)
٭ ڈیلی ’’ٹائمز‘‘ 22؍نومبر2006ء میں شائع ہونے والے ایک ایڈیٹوریل کا اردو ترجمہ :
ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی تھے جنہیں 1979ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا ۔لیکن عین ممکن ہے کہ وہ آخری پاکستانی ہی ثابت ہوں اگرہم باقی دنیا کے لئے ایک دہشت گر د قوم کے طور پر پہچانے جاتے رہے۔
ہم ڈاکٹر عبدالسلام کو اعزاز دینے سے گھبراتے ہیں کہ ہمارا آئین ’’جس میں ہم نے ترمیم کے ذریعے ان کی جماعت کو غیر مسلم قرار دیا ہے ‘‘ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ جب ڈاکٹر عبدالسلام نے 1996ء میں رحلت فرمائی وہ اسی سر زمین میں مدفون ہوئے جس کی قومیت کو وہ ترک کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ حالانکہ دوسری شہریت میں انہیں زیادہ عزت مل سکتی تھی۔ چونکہ پاکستانی انتظامیہ کے لوگ ان کی نعش مبارک کو چھونے کے لئے تیار نہ تھے لہٰذا ان کی تدفین ربوہ میں ہوئی جو ان کی احمدیہ جماعت کا مرکز ہے اور جس کا نام تک ہم نے گوارانہ کرتے ہوئے سرکاری اعلانیہ کے ذریعہ چناب نگر رکھ دیا ۔لیکن قصہ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتا۔ ان کے سپرد خا ک کرنے کے بعد ضلع جھنگ کے ’’پرہیزگار ‘‘ اور’’قانون ‘‘ کا احترام کرنے والی انتظامیہ کے لوگ چناب نگر پہنچے اس بات کا اطمینان کرنے کے لئے آیا جماعت احمدیہ نے تمام کارروائی آئین کے مطابق سر انجام دی ہے ۔
آئین اس سلسلہ میں کیا کہتا ہے ؟آئین کے مطابق احمد ی مسلمان نہیں۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے مجاز نہیں ہیں اور نہ ہی کلمہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اسلام کی کوئی اصطلاح استعمال کرسکتے ہیں آئین کی اصل ترمیم ذوالفقار علی بھٹو نے پاس کی جو کہ ایک روشن خیال جمہوریت پسند کہلاتا تھا۔ پھر اس کے بعد قانون کو مزید سخت بنانے کا سہرا جنرل ضیاء الحق جیسے ’’عظیم محب وطن ‘‘ کے حصہ میں آتا ہے اس طرح ایک انتظامی سربراہ اور ایک فوجی حکمران دونوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کے خلاف اس ساز باز میں برابر کا حصہ پایا ۔ اس عظیم سائنسدان کی چناب نگر میں تدفین کے بعد کتبہ پر یہ الفاظ تحریر کئے گئے (عبدالسلام پہلے مسلم نوبیل انعام یافتہ سائنسدان )۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ پولیس مجسٹریٹ کے ہمراہ پہنچی اور مسلم کا لفظ مٹادیا۔ … پاکستانی سیاستدانوں کی طرف سے انہیں ’’مرتد‘‘ قرار دینے سے پہلے وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، سائنٹیفک کمیشن آف پاکستان کے رکن تھے اور صد ر پاکستان کے 1961ء سے 1974ء تک چیف سائنٹیفک ایڈوائزر تھے ۔ پاکستان کے خلائی تحقیق کے ادارے سپارکوؔ کی بنیاد بھی انہی کی مرہون منت ہے۔ … ڈاکٹر عبدالسلام کو1979ء میں فزکس میں نوبیل انعام ملا ۔یہ جنرل ضیاء کے لئے انتہائی پریشان کن لمحہ تھا جس نے کہ آئین کی اس دوسری ترمیم کا اضافہ کیا تھا جس میں احمدیوں کو تنگ کرنے کے احمقانہ احکامات تھے۔ اسے اس عظیم سائنسدان کا استقبال کرنا پڑا اور TV پر ان کے ساتھ آنا پڑا۔ چونکہ اسلامی حکومت کے مذہبی عناصر پہلے ہی سیخ پا تھے لہٰذا انہیں ڈاکٹر سلام کی تقریر کے وہ حصے جس میں انہوں نے کلمہ اور دوسری اسلامی اصطلاحات کا ذکر کیا تھا حذف کرنا پڑے ۔یہ ڈاکٹر عبدالسلام کی خوش قسمتی تھی کہ ضیاء الحق کے ’’مومنین ‘‘ میں سے کوئی ’’مومن ‘‘ قانونی چارہ جوئی کے لئے عدالت میں نہ گیا وگرنہ یہ نوبیل انعام یافتہ سائنسدان چھ ماہ قید بامشقت کی سزا کا مستوجب ہوتا۔ …‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں