محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍اکتوبر 2010ء میں مکرم محمود احمد کاؤاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ محترم ڈاکٹر صاحب کی وفات پر مَیں نے غم سے نڈھال ایک غیراز جماعت کے منہ سے یہ بات بار بار سنی کہ میری ماں کو کوئی ڈاکٹر صاحب کے بارہ میں نہ بتائے ورنہ وہ مر جائے گی۔

ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید

چند روز بعد وہ شخص مجھے کسی جگہ ملا تو میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ میری والدہ کو ایک رات ہارٹ اٹیک ہوا تو مَیں اُسے لے کر سول ہسپتال پہنچا۔ رات بارہ بجے ڈاکٹروں نے مجھے کہا کہ مریضہ کی حالت خطرے سے باہر ہے لیکن اگر ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی سے بھی مشورہ کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ میں اس بات پر پریشان تھا کہ ڈاکٹر صاحب سے میری کوئی واقفیت نہیں ہے اور پھر یہ کہ رات بھی آدھی سے زیادہ بیت گئی ہے۔ تاہم ماں کی محبت کی وجہ سے مَیں آپ کے گھر پہنچا تو چوکیدار نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سوچکے ہوں گے۔ مَیں نے صورتحال بتائی تو وہ کہنے لگا کہ اگر سوئے نہ ہوئے تو پھر اُنہیں بتادوں گا۔ خوش قسمتی سے ڈاکٹر صاحب جاگ رہے تھے۔ انہوں نے اُسی وقت مجھے بلالیا اور مسکراتے چہرہ سے ساری بات پوچھی۔ پھر ساری رپورٹس دیکھیں، نسخہ دیکھا اور ایک دوا تبدیل کرکے کہا کہ مَیں صبح اپنے ہسپتال جاتے ہوئے راستہ میں تمہاری والدہ کو دیکھتا جاؤں گا۔ لیکن جب مَیں بازار سے دوا خرید کر واپس ہسپتال پہنچا تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب میری والدہ کے سرہانہ کھڑے تسلّی دے رہے ہیں۔ آپ کہنے لگے کہ نسخہ تو تجویز کردیا تھا لیکن مریضہ کو دیکھا نہیں تھا۔ اس لئے آگیا ہوں ورنہ مجھے رات بھر نیند نہ آتی۔ آپ خود اپنی کار ڈرائیو کرکے آئے تھے اور مجھ سے بھی کوئی فیس نہیں لی۔ پھر اگلی صبح بھی آئے تو میری والدہ نے کہا کہ مَیں تو ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے ہی ٹھیک ہوگئی ہوں اور آئندہ صرف انہی سے علاج کرواؤں گی۔ اسی لئے مجھے خوف ہے کہ جب میری ماں کو محترم ڈاکٹر صاحب کی شہادت کا پتہ چلے گا تو وہ تو یہ سن کر ہی مر جائے گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں