محترم ڈاکٹر مجیب الرحمٰن پاشا صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍جولائی 2006ء میں محترم ڈاکٹر مجیب الرحمٰن پاشا صاحب سے متعلق مکرم محمد طارق محمود صاحب مربی سلسلہ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ محترم ڈاکٹر پاشا صاحب کو 7؍مئی 2006ء کی شام آپ کے کلینک کے سامنے گولی مار کر شہید کردیا گیا تھا۔
اپنی شہادت کے روز محترم پاشا صاحب پہلے سارا دن بارہ میل دُور کے ایک گاؤں میں ایک میٹنگ میں شریک ہونے والوں کو لے جاتے رہے۔ پھر فارغ ہوکر اپنے کلینک پر چلے آئے جو مسجد فضل سانگھڑ کے چوک میں برلب سڑک واقع ہے ۔ کلینک کے اوپر ہی آپ کی رہائش بھی تھی۔ آپ اپنی رہائشگاہ میں جانے والے تھے کہ ایک عیسائی مریض آپ کو سڑک پر کھڑا کرکے باتوں میں مصروف ہو گیا ۔ تقریباً سوا نو بجے اچانک ایک نامعلوم شخص نے قریب ہو کر محترم ڈاکٹر صاحب کے سر پر پستول کی گولی سے فائر کیا۔ گولی دماغ سے گزرتی ہوئی پیشانی کے درمیان سے پار نکل گئی ۔اور ڈاکٹر صاحب بیہوش ہوگئے۔ بدبخت قاتل بھاگ کر اندھیری گلی میں غائب ہو گیا ۔ محترم ڈاکٹر صاحب کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں فرسٹ ایڈ کے بعد حیدرآباد بھجوا یاگیا لیکن راستہ میں ہی آپ کی وفات ہوگئی۔
مرحوم شہید کے والد محترم ڈاکٹر پیر فضل الرحمٰن صاحب (سابق امیر ضلع سانگھڑ) اپنی شرافت طبع اور بے لوث خدمت خلق کی وجہ سے مشہور ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس شہادت کا ذکر تین دن تک اخبارات نے شہ سرخیوں میں اس طرح کیا کہ ’’سانگھڑ کے مشہور و معروف ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بیٹے ڈاکٹر مجیب الرحمٰن پاشا کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا‘‘۔ اس خاندان کی شرافت کی وجہ سے لوگوں نے اس واقعہ کی پُرزور مذمت کی اور اپنے اس محسن کے قتل پر غم وغصہ کے ساتھ اپنے آنسوؤں کو بہا کر بھی اپنی دلی کیفیت کا اظہار کیا ۔
ڈاکٹر مجیب الرحمٰن صاحب پاشا ایسا نفیس اور کم گو اور بے لوث خدمت کرنے والا تھا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے جہاں اپنوں نے اس کی کمی محسوس کی اور آنسو بہائے وہاں غیروں نے بھی اسے خراج تحسین پیش کیا ۔ اس واقعہ کے خلاف شہر بھر کے ڈاکٹر وں نے مکمل ہڑتال کرکے اس واقعہ کے خلاف احتجاج کیا۔
محترم ڈاکٹرپاشا صاحب 21؍جون 1961ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے نانا حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی اور دادا حضرت پیر برکت علی صاحبؓ تھے۔ آپ کے والد کا آبائی گاؤں ’’رنمل ‘‘ ضلع منڈی بہاؤ الدین ہے۔
مضمون نگار کو 1984ء تا 1987ء سانگھڑ میں بطور مربی سلسلہ فرائض سرانجام دینے کی توفیق ملی۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں محترم مجیب الرحمٰن پاشا صاحب کا لڑکپن کا دور تھا۔ آپ ایک سنجیدہ، انتہائی تابعدار، شریف النفس، بڑوں کا احترام کرنے والے اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ وفات کے وقت آپ سیکرٹری تحریک جدید سانگھڑ اور نائب ناظم ایثار انصاراللہ ضلع سانگھڑ کی خدمت بجا لارہے تھے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ مَیں نے تعزیت کے لئے آئے ہوئے بعض غیراز جماعت لوگوں کو آنسوبہاتے دیکھا جو قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ ایک ہمدرد اورغمخوار انسان کو قتل کر دیا گیا ہے۔ مرحوم کی نماز جنازہ پہلے حیدرآباد اور پھر سانگھڑ میں ادا کی گئی۔ جنازہ میں سینکڑوں لوگ جمع ہوئے جن میں غیر احمدی وکلاء، ڈاکٹرز اور ہرطبقہ کے لوگ شامل تھے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اہلیہ محترمہ ڈاکٹر نعیمہ مجیب صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی پسماندگان میں چھوڑے ہیں۔
مورخہ 12 مئی 2006ء حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناگویا (جاپان) سے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے محترم ڈاکٹر پاشا صاحب کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایاکہ ’’آپ بڑے کم گو اور خدمت کرنے والے اور چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے‘‘۔ حضورانور نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں