مشرقی افریقہ میں دعوت الی اللہ کی تاریخ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15جون 2005ء میں مشرقی افریقہ میں تبلیغ کے حوالہ سے مکرم محمد شفیق قیصر صاحب کا ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
مشرقی افریقہ میں کینیا، یوگنڈا، تنزانیہ، ملاوی (نیاسالینڈ) اور موزمبیق شامل ہیں۔ اسی طرح صومالیہ بھی براعظم افریقہ کے مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ روانڈا اور برونڈی بھی کسی وقت ٹانگا نیکا کے ساتھ مل کر جرمن ایسٹ افریقہ کہلاتے تھے جبکہ ملاوی ، کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ برٹش ایسٹ افریقہ کہلاتے تھے۔ (ٹانگا نیکا اور زنجبار کا اپریل 1964ء میں الحاق ہوگیا تھا اور دونوں مل کر جمہوریہ تنزانیہ کے نام سے موسوم ہیں)۔ افریقن ممالک کی آزادی سے قبل کینیا، یوگنڈا، تنزانیہ میں ایشین کے علاوہ عرب مہاجرین بھی آباد تھے۔ تنزانیہ کا ساحل بحری تجارت کے لئے زیادہ موزوں ہے کیونکہ وہاں متعدد کھاڑیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عربوں کی توجہ اس طرف زیادہ رہی اور یہیں سے وہ یوگنڈا، ملاوی اور کانگو میں داخل ہوئے۔
مشرقی افریقہ کا بڑا حصہ خط استوا پر واقع ہے اس وجہ سے مسلسل بارشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن موسم نہایت خوشگوار ہے۔ اس خطہ میں کئی اونچے پہاڑ ہیں۔ بعض چوٹیوں کی بلندی 19ہزار فٹ تک ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑکی بعثت سے پہلے افریقہ کے بڑے حصہ میں شرک و بت پرستی عام تھی۔ البتہ شمالی اور مشرقی افریقہ کے ایک محدود حصے میں یہودیت پھیل چکی تھی۔ عیسائیت اور اسلام کی اشاعت کے بعد گو یہودیوں کا مذہبی اثر کم ہوگیا لیکن پورے طور پر ختم نہیںہوا۔ چنانچہ ایک صدی قبل جب صیہونیت کی تحریک نے جنم لیا تو ابتداء ً یہ تجویز کی گئی کہ کینیا کو یہودیوں کا وطن قرار دیا جائے۔
حبشہ میں (جو مشرقی افریقہ کے شمال میں واقع ہے) عہد نبویؐ میں ہی اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا اور کئی مسلمان کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر وہاں پناہ گزین ہوئے تھے۔ وہاں کا عیسائی بادشاہ اصحمہ نجاشی بہت انصاف پسند تھا۔ ہجرت مدینہ کے بعد جب حضورﷺ نے امراء وسلاطین کو تبلیغی خطوط روانہ فرمائے تو شاہ حبشہ کے نام بھی خط لکھا جس کے جواب میں اُس نے لکھا کہ:ہم نے آپ کی دعوت حق کو سمجھ لیا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے سچے رسول ہیں جن کے متعلق پہلے صحائف میں بھی خبر دی گئی ہے۔
خلافت راشدہ کے زمانہ کے بعد جب مسلمانوں میں آپس کے اختلافات بہت بڑھنے لگے اور مختلف مکاتب فکر آپس میں برسرپیکار رہنے لگے تو اس وقت بعض مظلوم اور ستم رسیدہ گروہ پر امن مقامات کی تلاش میں نکلے اور یہی وہ زمانہ ہے جب عربوں نے مشرقی افریقہ کے ساحل پر آباد ہونا شروع کر دیا۔ یہ ساتویں صدی عیسویں کا زمانہ ہے اور دو سو سال کے اندر مشرقی افریقہ کے ساحل پر عربوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں بھی نظر آنے لگیں۔ عربوں نے افریقن قبائل میں شادیاں کیں اور انکی اولاد سواحیلی کہلانے لگی یعنی ساحل سمندر کے لوگ۔ اس طرح ایک نئی زبان بھی معرض وجود میں آئی جو اسی مناسبت سے سواحیلی کہلائی جو عربی سے فیض یافتہ اور اسکے علمی الفاظ اور اصطلاحات سے مالا مال ہے۔ اس کا رسم الخط بھی ابتداء میں عربی تھا مگر جب انگریزوں نے اس علاقہ کو اپنے زیرنگیں کیا تو اس کا رسم الخط بھی انگریزی کر دیا گیا۔
المسعودی 947ء۔ الادریسی1154ء کی تحریرات کے مطابق مشرقی افریقہ کے ساحل اور زنجبار میں اس زمانہ میں اسلام پھیل چکا تھا۔ ابن ادریس کے سو سال بعد ابن سعید نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام ان علاقوں میں نہ صرف مستحکم ہوچکا تھا بلکہ یہاں خالص اسلامی ریاستیں قائم تھیں مثلاً Magdishu جہاں مختلف مسلم قبائل آباد تھے۔ اگرچہ ان کا ایک حکمران نہیں تھا تاہم ہر قبیلہ کا ایک عالم تھا جسے شیخ کہتے تھے اور سب اس کا حکم مانتے تھے۔ اسی طرح Kilwa کے باشندے حضرت زید ابن علی بن حسن کے متبعین کہلاتے ہیں۔ 16ویں صدی عیسوی تک یہ سب سے اہم ریاست تھی۔ ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفرنامہ میں اس کا تذکرہ احسن رنگ میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ Lamu ، Malinadi، ممباسہ، Maroka (جو پچاس دیہات سے زیادہ پر مشتمل تھی)، Barawa اور Mafia کی ریاستیں بھی تھیں۔
سترھویں عیسوی صدی تک مشرقی افریقہ کے ساحل پر پرتگالیوں اور عربوں کے درمیان کش مکش جاری رہی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے موزمبیق کے علاوہ کینیا اور یوگنڈا کے بعض ساحلی شہر نکل گئے جن میں کلوا کی ریاست بھی شامل تھی۔ 1700ء میں عمان کے سلطان نے ممباسہ اور زنجبار پر قبضہ کر لیا اور 1750ء میں کلوا کو بھی پرتگالیوں سے آزاد کروالیا۔ سلطان نے یہاں اپنا ایک نائب سید سعید مقرر کیا۔ چنانچہ جھیل ٹانگا نیکا کی بندرگاہ Ujiji (جو وسطی مشرقی افریقہ کا اہم اسلامی مرکز تھا) میں عربوں نے آنا جانا شروع کر دیا اور 1860ء میں یہاں چند گھرانے مستقل طور پر آباد ہوگئے۔ مشرقی افریقہ پر تقریباً چھ سو سال تک مسلمانوں کا اقتدار رہا لیکن اس تمام عرصہ میں تبلیغ اسلام کی کوئی منظم جدوجہد نظر نہیں آتی۔
1844ء میں ممباسہ میں عیسائی مشن کی بنیاد ڈالی گئی۔ حسن اتفاق ہے کہ اسی سال یوگنڈا میں بھی مسلمان عرب داخل ہوئے اور احمدبن ابراہیم العمری اپنی تجارتی مہمات کے سلسلہ میں وہاں پہنچا۔ 1848ء میں یوگنڈا کی اہم ریاست یوگنڈا پر شاہ سونا حکمران تھا جس نے ایک روز شدت غضب میں اپنی رعایا کے بہت سارے افرادکو موت کے گھاٹ اتارنے کا حکم دیا۔ احمد بن ابراہیم اس ظالمانہ حکم کو برداشت نہ کر سکا اور ارشاد نبویؐ کے مطابق اس نے بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’اے بادشاہ! آپکو اور آپکی ساری رعایا کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اسی کی ذات والا صفات نے آپکو یہ سلطنت عطا فرمائی ہے۔ آپ اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کریں کیونکہ مخلوق خدا کو بلاوجہ قتل کرنا اس کے خالق کی نظروں میں بہت بڑا جرم ہے‘‘۔ یوگنڈا کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ کوئی انسان بادشاہ کے سامنے یہ الفاظ کہنے کی جرأت کرسکا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ بادشاہ احمد بن ابراہیم کے قتل کا فتویٰ بھی دیدے گا۔ لیکن یوگنڈا کا مطلق العنان حاکم محمد عربی ﷺ کے ادنیٰ ترین خادم کی تبلیغ وجرأت کا شکار ہوچکا تھا۔ کچھ توقف کے بعد اُس نے کہا: ’’احمد! مجھے اپنے دین کے متعلق کچھ مزید بتاؤ‘‘۔ یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا اور اس طرح شاہ سونا کے زمانہ میں اس ملک میں اسلام کی ابتداء ہوئی۔
احمد ایک تاجر تھا جو کچھ عرصہ بعد اپنے وطن لوٹ گیا۔ بعد میں شاہ سونا کا انتقال ہوگیا اور حکومت کی باگ دوڑ مٹسیا اول کے ہاتھوں میں آگئی۔ جس کے عہد میں بھی مسلمان عرب تاجروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور چند سو باشندوں نے اسلام قبول کر لیا۔ بادشاہ نے سواحیلی زبان سیکھی اور تمام باشندوں کو حکم دیا کہ وہ السلام علیکم کو رواج دیں۔ مساجد بھی تعمیر ہوئیں۔
شاہ مٹسیا کے زمانہ میں شاہی محل میں مقیم بعض مسلمانوں نے اس بناء پر ذبیحہ کھانے سے انکار کر دیا کہ وہ صحیح اسلامی طریق کے مطابق نہیں تھا۔ شاہ کے علم میں یہ بات آئی تو اس کے غضب کی انتہا نہ رہی اور اس نے ان تمام بے گناہوں کو گرفتار کر کے زندہ جلانے کا حکم دیدیا اور خود بھی اسلام سے منحرف ہوگیا۔ چند لوگوں نے ملک چھوڑ کر جان بچائی۔ بعض قریبی ریاستوں میں روپوش ہوگئے لیکن ساٹھ ستر اشخاص ایسے تھے جن کی قسمت میں شہادت لکھی تھی۔ چنانچہ 1885/86ء میں کمپالا سے چھ سات میل کے فاصلہ پر ان سب کو زندہ جلا دیا گیا۔ اور اس طرح یوگنڈا میں افریقن مسلمانوں نے آگ میں جل کر اسلام کی اشاعت کا راستہ کھول دیا۔
1895ء میں برطانوی عہد میں یوگنڈا ریلوے کا عظیم منصوبہ شروع ہوا تو اس کی تکمیل کیلئے ہندوستان سے ماہرین اور مختلف پیشہ وروں کو ہزارہا کی تعداد میں مشرقی افریقہ میں لایا گیا۔ ان میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے بعض جلیل القدر صحابہؓ بھی تھے۔ حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل گوڑیانویؓ فوج میں ملازم تھے۔ آپؓ کے ذریعہ کئی خوش نصیب احمدیت میں داخل ہوئے۔ آپؓ تین سال بعد واپس آگئے تو حضرت منشی محمد افضل ؓ اور حضرت شیخ نور احمد ؓ ہر قسم کی مخالفت کے باوجود اشاعت احمدیت میں مصروف رہے۔ آپکے ذریعہ جن کو قبول حق کی سعادت نصیب ہوئی ان میں حضرت ڈاکٹر رحمت علیؓ آف رنمل گجرات بھی تھے جن کے نیک نمونہ سے اُن کے حقیقی بھائی حضرت حافظ روشن علیؓ بھی سلسلہ احمدیہ سے منسلک ہوئے۔
خلافت ثانیہ کے ابتداء میں بھی ہندو پاکستان کے مختلف علاقوں سے احمدیوں کی کافی تعداد مشرقی افریقہ پہنچی۔ اسی زمانہ میں احمدیت کی مخالفت بھی ہونے لگی اور جماعت کے خلاف کثرت سے اشتہارات شائع ہوئے۔ اس عرصہ میں محترم قاضی عبد السلام بھٹی نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ آپ 1927ء میں یہاں تشریف لائے۔ آپ نے کثرت کے ساتھ اشتہارات شائع کئے اور پھر باقاعدہ ایک پریس کا قیام بھی آپ کے ذریعہ سے عمل میں آیا۔ ایسٹ افریقن ٹائمز کے ایڈیٹر کے طور پر بھی آپ کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
1934ء میں انجمن حمایت اسلام نیروبی نے احمدیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اخبار زمیندار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خاں کی سفارش پر لال حسین اختر کو مشرقی افریقہ بلوایا۔ اس پر جماعت نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حالات عرض کئے تو حضورؓ نے محترم شیخ مبارک احمد صاحب کو نومبر 1934ء میں مشرقی افریقہ بھجوادیا۔ 1935ء میں آپ نے لال حسین اختر سے مختلف موضوعات پر کامیاب مناظرہ کیا جو مباحثہ نیروبی کے نام سے شائع شدہ ہے۔ آپ کی شاندار کامیابی کے بعد معاندین نے حملہ کرکے آپ کو زخمی بھی کیا، سوشل بائیکاٹ کا حربہ بھی چلایا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے ناکام رہا اور اس کے سرغنہ نے احمدیت قبول کرلی۔
محترم شیخ صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایات کی روشنی میں منظم رنگ میں مقامی باشندوں میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیا۔ 1936ء میں آپ نے سواحیلی اخبار ’’مپنزی یامنگو‘‘ جاری فرمایا جس نے عیسائی پادریوں کا بھی خوب مقابلہ کیا۔ عیسائی پادریوں نے اس رسالہ کا رومن کیتھولک کو پڑھنا حکماً بند کردیا۔ نیز عیسائی اخبارات کے ایڈیٹروں نے شیخ صاحب کو دھمکیاں بھی دیں۔ لیکن مشکلات کے باوجود 1937ء میں ٹبورا احمدیہ سکول کا قیام عمل میں آگیا۔ شیخ صاحب نے مختلف سکولوں میں اسلام پر لیکچر بھی شروع کئے اور لٹریچر کی تیاری کی طرف بھی توجہ دی۔ چنانچہ سترہ سال کی محنت شاقہ کے بعد 1952ء میں پہلی مرتبہ کسی اسلامی جماعت نے سواحیلی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کیا۔ اس کے علاوہ بہت سا قیمتی لٹریچر شائع کیا۔ مساجد کی تعمیر کی۔ بعض انگریز بھی احمدیت میں داخل ہوئے جن میں احمد لاسن قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے جماعت میں داخل ہوتے ہی اسلام کے متعلق مضامین کا سلسلہ شروع کر دیا اور متعدد چھوٹے چھوٹے پمفلٹ لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔
اخبار ’’نوائے وقت‘‘ کے نامہ نگار متعین امریکہ نے اُس زمانہ میں لکھا کہ حال ہی میں امریکہ کے مشہور پادری بلی گراہم نے افریقہ کا دورہ کیا۔ گزشتہ ہفتہ انہوں نے صدر آئزن ہاور سے وائٹ ہاؤس میں 40 منٹ تک تبادلہ خیالات کیا اور صدر کو یہ مشورہ دیا کہ وہ نائیجیریا کا دورہ کریں… انہوں نے رپورٹروں کو بتایا کہ مسلمان مشرقی افریقہ میں جب سات حبشیوں کو مسلمان بناتے ہیں تو عیسائی مشنری کہیں مشکل سے تین کو عیسائی بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں: ’’افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی مذہبی مشینری کام کررہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے۔ نیروبی میں تو احمدیوں نے ایک بہت بڑا مذہبی اسلامی مرکز قائم کر رکھا ہے۔ اخبار بھی شائع کرتا ہے… بلی گراہم جب اپنے حالیہ دورہ میں نیروبی گئے تو اسلام کی طرف سے اگر کسی جماعت نے انہیں مباحثہ کی دعوت دی تو وہ جماعت احمدیہ تھی‘‘۔
حضرت مصلح موعود نے 1945ء میں فرمایا:
’’خدا نے ان افریقن ممالک کو احمدیت کے لئے محفوظ رکھا ہوا ہے اور اسلام کی ترقی کے ساتھ ان کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ ہمارا مستقبل افریقہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ … خدا تعالیٰ نے یہ راز مجھ پر کھول دیا کہ یہ وہ ملک ہے جس میں ہمارے لئے غیر معمولی طور پر ترقی کے راستے کھلے ہیں اور جن کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا… اگر ہم کچھ بھی کوشش کریں تو چونکہ حق ہمارے ساتھ ہے اس لئے نہ صرف حق کے لحاظ سے ہمیں غلبہ حاصل ہوگا بلکہ افریقن فطرت بھی ہماری تائید کرے گی اور یہ حریف پر ہمیں فضیلت حاصل ہوگی کہ وہ تو صرف طاقت کے زور سے چھیننا چاہے گا۔ مگر ہمیں سچائی کی طاقت حاصل ہوگی اور افریقن فطرت بھی ہماری تائید کرے گی اس لئے وہ قومیں بہر حال ہماری طرف آئیں گی۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں