مشہورمستشرق … سر ولیئم میور

ماہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ ربوہ اپریل 2007ء میں مکرم طارق حیات صاحب کے قلم سے مستشرق سر ولیئم میور کا تعارف اور وجہ شہرت شامل اشاعت ہے۔
لفظ استشراق (Orientalism) اور مستشرق (Orientalist) اپنے اصطلاحی مفہوم کے اعتبار سے بہت پرانا لفظ نہیں ہے بلکہ اٹھارویں صدی کے اواخر میں اس کا استعمال شروع ہوا۔ جس کے معنی مشرقی خصوصیات، مشرقی طرزوادا، علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کے ہیں۔ اور مستشرق کے معنی ہوئے وہ شخص جو مشرقی زبانوں، علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت پر عبور رکھتا ہو۔ یعنی ماہر علومِ شرقیہ یا ماہر مشرقیات۔
عمومی طور پر مستشرق ان مغربی اور یورپین علماء اور محققین کے لئے عام ہوتا چلا گیا جنہوں نے اسلام اور آنحضرتﷺ کی سوانح اور تاریخ کی بابت کتب لکھیں۔ مستشرقین کی تاریخ میں ہمیں Gerber Deoraliac (ء1938-1903) اور راجر بیکن (1294-1214ء) نظر آتے ہیں۔ اور ان سے بھی پہلے کے مصنف جان آف دمشق (754-700ء) کی کتب نظر آتی ہیں۔ ان مستشرقین نے اسلام اور بانیٔ اسلام کے متعلق لکھنا شروع کیا اور پھر ان کی تعداد اور تصنیفات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور یوں ایک رنگ میں صلیبی جنگوں کو قلم کے کی تلوار سے جاری رکھا گیا۔ سولہویں صدی عیسوی میں اس کو ایک باقاعدہ اور منظم طریق پر تحریک کی شکل دیدی گئی۔ چنانچہ Guillaism Postel (ء1581-1510) فرانسیسی مستشرق ہے جو، مستشرقین کا بابا آدم شمار ہوتا ہے، اس کے لئے بنیادی کردار ادا کیا۔ تب سے لے کر اب تک سینکڑوں کی تعداد میں مستشرقین اپنی ’’علمی اور تحقیقی‘‘ تخلیقات کو پیش کرتے رہے اور ایک زمانہ ان کی علمی اور تحقیقی کاوشوں سے مرعوب بھی ہوتا رہا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک دنیا کا دل ان کی تصنیفات سے دُکھتا بھی رہا کیونکہ اُن میں انتہائی دل آزار اور نفرت انگیز مواد بھی خوب ہوتا تھا۔ بعض مستشرقین کا مقصد یہی تھا کہ کونسی ایسی بات ڈھونڈ کر لائیں کہ مسلمانوں کے دل دکھاکر صلیبی جنگوں میں شکست کا بدلہ لیں۔ چنانچہ نہایت ضعیف روایات کو وہ اپنی تحریروں کی بنیاد بناتے یا کسی اسرائیلی روایت پر اور یا پھر کوئی روایت خود ہی گھڑ لی۔ چنانچہ مغرب کے نامور محققین میں ایک بڑا حصہ مستشرقین کا ایسا ہے جو نہ عالم کہلانے کا مستحق تھا اور نہ ’’محقق‘‘۔ انصاف اور اخلاقی اصول و روایات کی کوئی پابندی اُن کے قلم اور ذہن میں نہیں تھی۔ اس زمانہ میں کتب کی اشاعت بھی نہ ہونے کے برابر تھی، اکثر لوگوں نے بخاری مسلم کا تو صرف نام ہی سنا تھا۔ ایسے میں ان صاحبان نے قدیم عربی کتب کی اشاعت اور ان کے تراجم کا اہتمام کیا۔ لیکن اس کے بدلہ میں پوری اسلامی دنیا سے جو انتقام لیا وہ بہت تکلیف دہ اور دردناک ثابت ہوا۔ بہت سے مستشرقین کو عربی زبان پر عبور تو کیا کوئی قابلِ ذکر مہارت بھی نہ تھی اور اسلام کے بنیادی اور ابتدائی مآخذ کی طرف رسائی تو شاید کسی کو بھی نہ تھی یا تھی تو ان کا تعصّب آڑے آتا تھا اور وہ نظریں چُرا لینے پر مجبور تھے۔ چنانچہ وہ علم و تحقیق کے ساتھ انصاف اور رواداری کا بھی خون کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس فہرست میں جو مستشرقین شامل ہیں، اُن میں

Francis Becon (1560-1626)
Andrea Dandolo Vediee
Irving Washington
Lammens (1862-1937)
Dr. Sprenger

نیز سر ولیئم میور اور ویری وغیرہ۔
ہر چند کہ اسلام کے ’’ویریوں‘‘ (دشمنوں) کی تعداد مستشرقین میں بہت زیادہ ہے لیکن کچھ ایسے بھی منصف مزاج اور قدرے معقول مستشرقین بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے حضرت محمد مصطفیﷺ کی بارگاہ مقدس میں خراج تحسین پیش کیا جو کہ ان کی علم دوستی، شرافت اور کسی قدر غیر جانبدارانہ تحقیق کا ثبوت ہے۔ ان میں

John William Draper (1875)
Lamartine (1854)
R. Bosworth Smith (1876)
Carlyle Thomas
John Davenport
W. Montogomery Watt
اور D.S.Margoliothکے نام قابل ذکر ہیں۔

سر ولیئم میور (Sir William Muir) کی بحیثیت مستشرق شہرت اس کتاب سے ہوئی جو اس نے نبی اکرم ﷺ کی سوانح پر لکھی ہے۔ کتاب کا نام ہے: The Life of Mahomet ۔ یہ کتاب دراصل انہوں نے اس زمانہ میں ہندوستان کے مشہور عیسائی مناظر پادری فنڈر Rev.C.G.Fander کی فرمائش پر لکھی تھی۔ یہ پادری صاحب خود بھی اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف زہر اُگلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، ’’میزان الحق‘‘ انہی کی تصنیف ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے: ’’جب پادری فنڈر صاحب نے اپنی کتابیں شائع کیں تو 1859ء تا 1860ء کا ذکر ہے کہ مولوی گل علی شاہ صاحب کے پاس جو ہمارے والد صاحب کے پاس جو خاص ہمارے لئے استاد رکھے ہوئے تھے پڑھا کرتا تھا اور اس وقت میری عمر سولہ سترہ برس کی ہوگی تو اس کی میزان الحق دیکھنے میں آئی ایک ہندو نے جو میرا ہم مکتب تھا اس کی فارسی دیکھ کر اس کی بڑی تعریف کی۔ میں نے اس کو بہت ملزم کیا اور بتایا کہ اس کتاب میں بجز نجاست کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ تُو نری زبان پر جاتا ہے‘‘۔
موصوف پادری صاحب کی بابت حضورؑ نے فرمایا:
’’اس صدی سے پہلے عیسائی مذہب کا یہ طریق نہ تھا کہ اسلام پر گندے اور ناپاک حملے کرے بلکہ اکثر ان کی تحریریں اور تالیفیں اپنے مذہب تک محدود تھیں۔ قریباً تیرہویں صدی ہجری سے اسلام کی نسبت بدگوئی کا دروازہ کھلا جس کے اوّل بانی ہمارے ملک میں پادری فنڈر صاحب تھے۔‘‘
سر ولیئم میور نے آنحضرت ﷺ کی سوانح کی بابت جو کتاب لکھی، اس کے چار حصے ہیں۔ اس کا پہلا ایڈیشن انگلستان میں 1861ء۔ دوسرا 1876ء اور تیسرا 1894ء میں شائع ہوا۔ 1912ء میں اس کتاب کا Revised Edition شائع کیا گیا جو 1923ء میں John Grant Edinburgh کے زیر اہتمام شائع ہوا اور تب اس کے صفحات کی تعداد 556 ہوگئی جس میں 75 صفحات تعارف کے مزید شامل کر لئے جائیں تو 631 صفحات ہوجاتے ہیں۔ یہ کتاب بھی سابقہ مستشرقین کی ڈگر پر چلتے ہوئے اور بے سروپا روایات کو بھی سر آنکھوں پر جگہ دیتے ہوئے لکھی گئی ہے گو ذرا طرز استدلال مختلف ہے۔ اس کتاب کا جواب سر سیّد احمد خانصاحب نے دینا شروع کیا اور پہلے حصہ کا جواب ’’خطبات الاحمدیہ علی العرب والسیرۃ المحمدیہ‘‘ کے نام سے شائع بھی ہوگیا۔ اس کا انگریزی ترجمہ 1870ء میں لندن سے A Series of Essays on the Life of Muhammad کے نام سے طبع ہوا اور اصل اردو کتاب 1887ء میں ہندوستان میں چھپی۔
ولیئم میور 27اپریل 1819ء کو انگلستان میں پیدا ہوئے۔ ایڈنبرا، گلاسگو اور سیل بری یونیورسٹیز سے تعلیم حاصل کی۔ 1837ء میں بنگال سول سروس میں شامل ہوئے۔ 1857ء کے ہنگاموں میں وہ آگرہ میں محکمہ جاسوسی کے نگران تھے۔ 1864ء میں محکمہ خارجہ کے سیکرٹری، 1865ء میں سپریم کورٹ کے ممبر اور پھر لیفٹیننٹ گورنر آگرہ اور اودلاکا رہے۔ 1885ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن گئے۔ 11؍جولائی 1905ء کو ان کا انتقال ہوا۔
ولیم میور کی تصانیف درج ذیل ہیں:

The Life of Mahomet.
The Mameluke Dynasty.
The Mohammadan Controversy.
Annalasis of Early caliphate.
The Coran.

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں