مٹی کے پیالہ میں شکر کا شربت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍مارچ 2010ء میں مکرم ناصر احمد خالد صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان کے مشہور وکیل، ادیب اور نقاد اعجاز بٹالوی وفات پا گئے جو مشہور مؤرخ اور ادیب ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کے چھوٹے بھائی تھے۔ ڈاکٹر صاحب 1931ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے جبکہ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ صدر تھے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم، حضرت چوہدری صاحبؓ اور ڈاکٹر پروفیسر عبدالسلام صاحب بے تکلف دوست تھے۔ چنانچہ چوہدری صاحب کی وفات پر BBC سے ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے ہی پروگرام پیش کیا تھا۔ 1928ء سے 1933ء تک میرے دادا حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب، امام مسجد فضل لندن تھے اور اسی عرصہ میں تینوں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس لندن میں ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت لندن میں طالب علم تھے اور وہ بھی اکثر مسجد آتے تھے۔
اعجاز ؔبٹالوی کی وفات پر میںان کے گھر تعزیت کے لئے گیا تو اُن کے بیٹے سلمان بٹالوی سے تعارف کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ میں بٹالہ کے قریب واقع قادیان کا رہنے والا ہوں۔ وہ کہنے لگے کہ ان کے دادا جان بٹالہ سے قادیان بڑے مرزا صاحب سے ملنے گئے تھے۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے اس سفر اور ملاقات کی روداد آپ کے چچا آغا بابرؔ کی خودنوشت سوانح عمری میں پڑھی ہوئی ہے اور اس وقت آپ کے دادا کی عمر تقریباً 16 سال تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا۔ جب حضرت اقدسؑ نے ابھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اور معرکۃالآرا کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کی وجہ سے سارے ہندوستان میں آپؑ کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے تحریر کیا تھا کہ گزشتہ تیرہ سو سالوں میں اسلام کی تائید اور حقّانیت پر ایسی زبردست کتاب پہلے نہیں لکھی گئی۔ ایک دفعہ مشہورمصنف ادیب اور نقاد علامہ نیاز فتح پوری نے تحریر کیا تھا کہ (حضرت) مرزا صاحب کی بعض تحریرات پڑھ کر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل اعجازؔ بٹالوی کے بھائی آغا بابر کی خود نوشت رسالہ ’’نقوش‘‘ میں قسط وار شائع ہوئی اور پھر کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ اس میں تحریر ہے کہ ان کے والد صاحب (حضرت ) مرزا صاحب سے ملنے قادیان گئے۔ وہ براہین احمدیہ کے مصنف کا شہرہ سن کر ان کو دیکھنے اور ملنے گئے تھے۔
اعجازؔ بٹالوی کے والد صاحب کا بیان ہے کہ میں قادیان پہنچ کر حضرت مرزا صاحب کے مکان پر پہنچا اور دروازہ پر دستک دی۔ اس وقت حضرت مرزا صاحب اکیلے ہی اپنے کمرہ میں اندر سے کنڈی لگا کر تحریر کا کام کر رہے تھے۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے دریافت کیا۔ ’’نوجوان! کہاں سے آئے ہو؟ اور کس غرض کے لئے آئے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا۔ کہ بٹالہ سے آپ کی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کا شہرہ سن کر آپ کی زیارت اور ملاقات کے لئے قادیان آیا ہوں۔ آپؑ نے مٹی کے پیالہ میں پاس پڑے ہوئے پانی کے مٹکے سے پانی انڈیلا اور اس میں شکر ملائی اور جس قلم سے تحریر کا کام کر رہے تھے۔ اس کی پشت سے شکر کو پانی میں گھولا اور اپنے ہاتھ سے یہ پیالہ مجھے پینے کو دیا۔ اس مضمون میں یہ تو ذکر نہیں ہے کہ اس موقعہ پر کیا گفتگو ہوئی۔ لیکن جب اعجاز بٹالوی ؔ کے والد صاحب اجازت لے کر واپس جانے لگے تو حضرت اقدس نے ان سے فرمایا ’’میاں! آتے جاتے رہا کرو‘‘۔ انہوں نے دل میں کہا کہ جس کسمپرسی کے عالم میں یہ قادیان کی گمنام بستی میں رہ رہے ہیں، میرا ان کے ساتھ کیا مستقبل ہو سکتا ہے؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں