مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2 جون 2011ء میں مکرمہ ا۔م صاحبہ کے قلم سے اُن کی والدہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت محمد بخش چوہان صاحبؓ خسوف و کسوف کا نشان دیکھ کر احمدی ہوئے تھے۔ اُن کے تیسرے اور سب سے چھوٹے بیٹے حضرت مہراللہ صاحب ؓ بھی نہایت نیک، تہجدگزار اور دعا گو انسان تھے۔ وہ بیان کیا کرتے تھے کہ میرے اباجان فارسی کے عالم تھے۔ سات سال کی عمر میں ایک بار انہوں نے مجھے نیند سے جگا کر کہا ’مہراللہ! اٹھو، چاند گرہن ہوا ہے اب کہیں نہ کہیں سے امام مہدی کی آواز آجانی ہے۔ ‘
حضرت مہراللہ صاحبؓ ریلوے میں انسپکٹر تھے۔ آپ کی نیک نامی کی وجہ سے آپ کو لمبا عرصہ بعد از ریٹائرمنٹ بھی ملازمت جاری رکھنے کا موقع ملتا رہا۔ بہت سے لوگوں نے آپ کا نمونہ دیکھ کر احمدیت قبول کی۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل ایک خواب کے نتیجہ میں آپؓ نے اپنی چیزیں تقسیم کرکے اور کچھ فروخت کرکے چھوٹی بیٹی کے پاس ربوہ میں سکونت اختیار کرلی اور چند ماہ بعد وہیں وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔
محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ بنت حضرت مہراللہ صاحبؓ اپنے گھر میں بڑی بیٹی تھیں اور نیک نمونہ والد سے ورثہ میں لیا تھا ۔ نہایت صا بر اور دعاگو تھیں۔ آپ کے بزرگوں نے جب دیکھا کہ قادیان میں بچیوں کو بھی تعلیم دی جاتی ہے تو وہ بھی قادیان منتقل ہوگئے اور آمنہ بیگم صاحبہ کو سکول میں داخل کروادیا۔ پھر پرائمری پاس کرنے کے بعد شادی ہوگئی تاہم تعلیم کا شوق اس قدر تھا کہ شادی کے بعد چھٹی کلاس میں داخل ہوگئیں لیکن پھر بچوں کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رہ سکی۔ البتہ وہاں قرآن کریم باترجمہ بھی پڑھ لیا جو پھر اپنے بچوں کو بھی پڑھایا۔
آپ قادیان سے بیاہ کر گاؤں گل منج آئیں۔ بہت سلیقہ شعار اور ہنرمند تھیں۔ سب کام خود کر لیتی تھیں۔ کھانا بنانا، تندور میں روٹی لگانا، ازاربند بنانا، سویٹر بُننا اور سلائی کڑھائی کی ماہر تھیں۔ دوسروں کو بھی سکھایا۔ خوشبو بہت پسند تھی۔ نما زوں کی پابند بلکہ تہجد گزار اور اشرا ق بھی باقاعدہ پڑھتیں۔ نما ز کے لئے کپڑے الگ رکھتیں۔ لجنہ کے کاموں میں مستعد تھیں۔ بہت دعاگو اور صدقہ اور نوافل ادا کرنے والی تھیں۔ اپنے خاوند کے کہنے پر مختلف کاموں کے لئے استخارہ کرتیں اور عموماً اگلے ہی روز بتا دیا کرتی تھیں۔ کسی بھی قسم کا معاملہ ہوتا ہمیشہ دعا پر ہی زور دیتیں۔
ایک مرتبہ ایک ہمسائی کے طلائی کانٹے گم ہوگئے ۔ اس نے آپ کے دو چھوٹے بیٹوں پر شک کیا۔ اس پر آپ نے دعا کرنی شروع کی تو خواب آئی کہ کوئی شخص کہتا ہے نہ تو تمہارے بچوں نے چوری کی ہے اور نہ اس عورت کے بچوں نے۔ آپ نے پوچھا کہ پھر کذّاب کون ہے ؟ اس پر آٹھ دس سال کی بچی دکھائی گئی جو اُس عورت نے گھر میں رکھی ہوئی تھی۔ بعد میں اُسی لڑکی سے کانٹے مل گئے۔
آپ اپنے خاوند کی ملازمت کی وجہ سے کئی مقامات پر اُن کے ساتھ رہیں۔ تاہم ایک خواب اور قادیان کے نیک اثر کی وجہ سے اپنے خاوند کو مجبور کیا کہ بڑے بیٹے کو قادیان میں تعلیم دلوائیں۔ آپ نے بتایا کہ جب مَیں قادیان میں پڑھتی تھی تو وہاں ایک بچے نے کافی بڑی رقم ملنے پر اپنے استاد کو پہنچادی تھی۔ اس پر آپ کے خاوند نے بتایا کہ وہ بچہ مَیں ہی تھا اور وہ چالیس روپے تھے جو غالباً کسی استاد کی مہینہ بھر کی تنخواہ تھی۔
محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ نے اپنے سُسر کی بہت خدمت کی اور دعائیں لیں۔ وہ ہمیشہ آپ کو سات بیٹوں کی ماں بننے کی دعا دیتے۔ خدا تعالیٰ نے یہ دعا قبول کی اور آپ کے ہاں سات بیٹے پیدا ہوئے۔ دو بیٹے بچپن میں وفات پاگئے جس پر آپ نے بہت صبر کا نمونہ دکھایا۔ صبر کا ملکہ آپ کو خاص طور پر دیا گیا تھا۔ بہت تنگی کا زمانہ بھی صبر سے گزارا۔ لمبے عرصہ تک گھر میں صرف چنے کی دال پکتی رہی اور آپ خود اچا ر کے ساتھ روزہ رکھ لیتیں۔ جولائی 1980ء میں وفات پائی۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں