مکرمہ ذیٹا شمیم صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 22 اپریل 2022ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍جون 2013ء میں مکرم آغا طاہر شمیم صاحب کے قلم سے اُن کی اہلیہ محترمہ ذیٹا شمیم صاحبہ کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ خاکسار کی اہلیہ آسٹریلین نژاد خاتون تھیں جو لمبے عرصے سے کینیڈا میں مقیم تھیں۔ جب 1981ء میں ہماری شادی ہوئی تو وہ احمدی نہیں تھیں لیکن ایک نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ اگرچہ اُس سے ایک سال قبل کینیڈا میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے ملاقات کرچکی تھیں۔ وہ حضورؒ کے نورانی چہرے کو یاد کرکے کہتی تھیں کہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص نہایت اعلیٰ روحانی مرتبے کا مالک ہے۔
بعدازاں مَیں نے لندن میں اُن کی ملاقات حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ سے بھی کروائی جنہوں نے اپنی کتاب ’’My Mother‘‘ انہیں تحفۃً عطا فرمائی۔ اس کے بعد مَیں انہیں پاکستان لے گیا جہاں میرے والد محترم نے اُن کو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا انگریزی ترجمہ دیا اور ایک بھانجے نے قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا۔ وہ بہشتی مقبرہ اور دیگر مقامات بھی دیکھنے گئیں۔ واپسی کے سفر تک انہوں نے دونوں کتابوں کا مطالعہ کرلیا اور واپس آکر قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور ایک مبشر رؤیا دیکھنے کے بعد انہوں نے بیعت کرلی۔ اس کے ساتھ ہی مالی قربانی میں بھی حصہ لینا شروع کیا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت آنے لگی اور جب مسجد بیت السلام کی تعمیر کے لیے چندے کی تحریک ہوئی تو انہوں نے اپنی تمام نقدی اور زیورات بخوشی پیش کردیے۔
ریڈیو ہملٹن سے ایک پروگرام میں انہوں نے سامعین کو یہ پیغام دیا کہ ’’بائبل میں جو غلطیاں اور خامیاں ہیں، اُن کا ازالہ صرف اور صرف قرآن مجید کی پاکیزہ تعلیمات ہی کرسکتی ہیں۔‘‘ یہی پیغام وہ اپنے دوستوں کو بھی دیتیں اور اُن کو قرآن کریم کے مطالعہ کی ترغیب دیتیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ساتھ بذریعہ خطوط وہ رابطہ رکھتیں۔ اُن کو کینسر کا عارضہ تھا۔ 7؍اپریل1984ء کو اُن کی وفات پر، اُن کی خواہش کے مطابق خاکسار اُن کا جسد خاکی ربوہ لے گیا۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت نماز جنازہ پڑھائی اور ربوہ میں تدفین کی اجازت عطا فرمائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں