مکرمہ رخسانہ طارق صاحبہ شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرمہ رخسانہ طارق صاحبہ کو مردان میں 9؍جون 1986ء کو عید کے دن شہید کیا گیا۔ شہیدمرحومہ کا تعلق سرگودھا سے تھا اور آپ مکرم مرزا خان محمد صاحب کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ اپنی شادی کے چند دن بعد ہی رخسانہ نے اپنے جہیز کا سارا سامان غریب لڑکیوں میں تقسیم کردیا۔ پوچھنے پر کہنے لگیں کہ میں نے امی جان سے کہا تھا کہ مجھے صرف ایک چارپائی دے دیں۔ زندگی فانی ہے، اس کا کیا بھروسہ! جتنی بھی غریبوںکی خدمت کرلوں مجھے راحت ہوتی ہے۔ شہید مرحومہ کے میاں طارق صاحب بتاتے ہیں کہ غریبوں کی خدمت کرکے ان کے چہرے پر اتنی خوشی چمکتی تھی جیسے سورج نکل آیا ہو۔
عید کے دن رخسانہ نے عید پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا مگر طارق کے بڑے بھائی نے مخالفت کی اور ڈانٹ کر منع کردیا مگر یہ نہ رُکیں اور پرانے کپڑوں میں ہی عید کی نماز کے لیے چلی گئیں حالانکہ شادی کے بعد یہ ان کی پہلی عید تھی۔ عید کی نماز میں وہ بہت روئیں مگر گھر واپس آتے ہوئے بہت خوش تھیں۔ سب کے لیے ناشتہ تیار کیا۔ ان کے خاوند بتاتے ہیں کہ میں حیران تھا آج اتنی خوش کیوں ہیں؟ گھر میں سب کو خوشی سے ملیں۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ان کے آخری لمحات ہیں۔ اتنے میں طارق کا بڑا بھائی آیا اور آتے ہی اس نے رخسانہ پر گولیوں کی بارش برسا دی۔ طارق کا بیان ہے کہ مجھے اکثر کہا کرتی تھیں کہ جب میں اللہ کو پیاری ہو جاؤں تو مجھے پہاڑوں کے دامن میں دفن کرنا۔ وہ ربوہ ہی کے پہاڑ تھے جن کے دامن میں وہ بالآخر دفن کی گئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں