مکرمہ سلیمہ بیگم صا حبہ (اہلیہ محترم ڈاکٹر عبدالرحمان صدیقی صاحب)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18و 19مئی 2011ء میں مکرمہ امۃالشافی صاحبہ کے قلم سے اپنی پھوپھی اور خوشدامن مکرمہ سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر عبدالرحمان صدیقی صاحب (والدہ محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید) کا تفصیلی ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں 6جولائی 2012ء کے شمارہ کے الفضل ڈائجسٹ میں بھی آپ کے بارہ میں ایک مضمون شائع ہوچکا ہے۔

ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید

حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ کی دوسری صاحبزادی محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ 1921ء میں قادیان کے اُس مکان میں پیدا ہوئیں جو حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی ملکیت تھا اور دارالمسیح سے ملحق تھا۔ یہ مکان حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کو حضرت مصلح موعودؓ نے رہائش کے لئے عطا فرمایا ہؤا تھا۔ چنانچہ آپ کو اکثر دارالمسیح میں جانے اور وہاں پاکیزہ افراد کی صحبت میں رہنے کا موقع ملتا تھا۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ بھی حضورؓ کے لئے دوا اپنے کسی بچے کے ہاتھ ہی بھجواتے۔ حضرت امّاں جانؓ بھی اکثر آپ کے ہاں تشریف لایا کرتیں۔
محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ نے قادیان میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور مڈل کے بعد دینیات کلاس میں داخل ہوگئیں۔ اس کلاس کے تین سالہ نصاب کی تکمیل اور کلاس میں اوّل آنے پر آپ نے حضورؓ سے طلائی تمغہ بھی حاصل کیا۔ پھر آپ نے اگلے ہی سال میٹرک کا امتحان دینے کا ارادہ کیا۔ نصاب زیادہ تھا اور وقت بہت کم تھا۔ ایک روز آپ حضورؓ کی خدمت میں دوائی پیش کرنے گئیں تو ساتھ اپنا جیومیٹری بکس بھی لے لیا اور حضورؓ کے سامنے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ حضورؓ نے جیومیٹری بکس کی چیزیں ہاتھ میں پکڑیں اور اندر کمرہ میں تشریف لے گئے پھر باہر آکر آپ کو چیزیں واپس کرکے فرمایا کہ مَیں نے دعا کردی ہے۔ جب امتحان ہوا تو آپ نے صوبہ پنجاب میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور طلائی تمغہ اور وظیفہ بھی حاصل کیا۔ پھر مزید تعلیم کے لئے آپ لاہور آگئیں اور اسلامیہ کالج سے B.A. اور پھر پنجاب یونیورسٹی اوریٔنٹل کالج سے 1948ء میں عربی میں M.A. کرلیا۔ بعد ازاں کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین ملتان میں لیکچرار رہیں۔ تعلیم اور ملازمت کے سارے عرصہ میں پردہ کی سخت پابند رہیں۔
زمانۂ طالبعلمی کے دوران آپ کو جماعتی خدمات کی بھی توفیق ملتی رہی۔ 1946ء کے انتخابات کے موقع پر خواتین کو ووٹ ڈالنے کی تربیت بھی دیتی رہیں۔ جلسہ سالانہ پر بھی باقاعدہ ڈیوٹی دیتیں۔ آپ کا دینی اور دنیاوی علم بہت وسیع تھا۔ حافظہ بھی غیرمعمولی تھا۔ پرانے واقعات بھی مکمل جزئیات کے ساتھ بیان کرتیں۔
1950ء میں آپ کی شادی حضرت مصلح موعودؓ کی تجویز پر محترم ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب سے ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک سال قبل ہی حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر میرپورخاص میں رہائش اختیار کی تھی۔ شادی کے بعد محترمہ سلیمہ صاحبہ نے میرپور خاص میں نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزارا۔ اس دوران اپنے شوہر کے ضلعی امارت سے متعلقہ امور میں معاونت کے علاوہ آپ بھی 37 سال تک شہر کی صدر لجنہ رہیں۔ شہر کی معزز خواتین میں آپ بہت مقبول تھیں۔ Apwa تنظیم کی لمبا عرصہ ممبر اور جنرل سیکرٹری بھی رہیں۔ بچیوں کے ’صنعتی گھر‘ کی انچارج بھی رہیں۔ ضرورتمند خواتین کی ہرممکن مدد کرتیں لیکن پردہ کے معیار کو ہمیشہ قائم رکھا۔
شادی کے بعد لمبا عرصہ جب اولاد نہ ہوئی تو محترم ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب کو لوگوں نے دوسری شادی کا مشورہ بھی دیا۔ لیکن اُن کا جواب یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اگر اولاد دینی ہے تو اسی بیوی سے دے گا، مَیں بلاوجہ اس کو تکلیف نہیں دینا چاہتا۔ چنانچہ شادی کے ساڑھے گیارہ سال بعدعبدالمنان صدیقی جیسا خوش بخت فرزند عطا ہوا۔
محترم ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب چونکہ دل کے مریض تھے اس لئے آپ ان کے آرام کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ اپنی ذہانت اور دُوراندیشی کی وجہ سے کلینک اور زمینوں کا حساب کتاب اور معاملات خود طے کرلیتیں تاکہ آپ کے شوہر پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ احمدیہ مرکز آپ کی ہمسائیگی میں تھا۔ جب تک وہاں خاد م مسجد کا انتظام نہ ہوگیا اس وقت تک اس کی نگرانی اور مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام بھی آپ کرتی رہیں۔ اس خاندان کو خلفاء کرام کے سندھ کے دورہ جات کے مواقع پر مہمان نوازی کا شرف بھی حاصل ہوتا رہا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے کئی بار آپ کے گھر کو برکت بخشی اور کئی بار کھانا یا ناشتہ آپ کے گھر سے سٹیشن پر اُس ریل گاڑی کی آمد کے وقت پہنچایا جاتا رہا جس میں حضورؓ سفر کررہے ہوتے۔ ایک بار جب حضرت مصلح موعودؓ آپ کے گھر تشریف لائے تو محترم ڈاکٹر عبدالرحمان صدیقی صاحب بعارضہ قلب بیمار تھے۔ حضورؓ نے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ’’آپ اٹھ کر چلنے کی کوشش کریں لیٹے نہ رہیں۔ انشاء اللہ ٹھیک ہوجائیں گے‘‘۔ حضورؓ کی دعاؤں کے طفیل ڈاکٹر عبدالرحمان صدیقی کو دل کی بیماری کے باوجود ایک لمبی عمر عطا ہوئی اور جماعت کی خدمت اور خدمت خلق کی بھی خوب توفیق ملی۔ آپ کے طبّی مرکز کا نام بھی ہمیشہ ’’فضل عمر‘‘کے حوالہ سے منسوب رہا۔
حضرت ڈاکٹر صاحب کے مکان کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1966ء میں رکھا تھا جب حضورؒ احمدیہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے میرپورخاص تشریف لائے تھے۔ 1980ء میں حضورؒ آپ کے ہاں دوبارہ تشریف فرما ہوئے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بھی دو دفعہ 1983ء اور 1984ء میں آپ کے ہاں تشریف لائے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ پہلے بحیثیت ناظر اعلیٰ جب سندھ کے دورہ پر تشریف لاتے تو کچھ وقت میرپورخاص میں قیام فرماتے ۔ اپریل 1998ء میں محترم ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب کی وفات ہوئی تو اُن کا جنازہ بھی حضور انور نے ہی پڑھایا تھا۔ 2005ء میں بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود صرف حضور انور کی ملاقات کی خاطر لندن کا سفر اختیار کیا۔
1997ء میں ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب امیر ضلع میرپورخاص و تھر منتخب ہوئے۔ اس سے پہلے انہوں نے بحیثیت سیکرٹری امور عامہ میرپورخاص، قائد علاقہ خدام الاحمدیہ و نگران صوبہ سندھ مجلس خدام الاحمدیہ بھی خدمات سرانجام دیں۔ ان کے لیے آپ بہت دعائیں کرتیں اور مفید مشوروں سے نوازتیں۔ 2001ء میں جب مجھے بحیثیت صدر لجنہ اماء اللہ میرپورخاص خدمت کی توفیق ملی تو میر ی بھی ہر ممکن راہنمائی فرماتیں اور دعاؤں سے مدد کرتیں۔ میرے بچوں کی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آپ کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ بچوں کو حساب اور اردو کے مضامین میں مدد کرتیں، تاریخ اور جغرافیہ کا بھی کافی علم تھا۔ بچوں کو بہت پیار دیتیں، ان کے ساتھ لُڈو کھیلتیں، کہانیاں سناتیں اور لطیفے بھی سناتیں۔
صحت کافی کمزور تھی لیکن پھر بھی ہمت نہ ہارتی تھیں۔ اپنے آپ کو تلاوت قرآن، مطالعہ کتب اور MTA کے دیکھنے میں مصروف رکھتی تھیں۔ کسی تکلیف یا اپنی بیماری کا بے جا اظہار نہ کرتیں بلکہ دعاؤں میں مصروف رہتیں۔
ملازمین سے آپ کا بہت اچھا سلوک ہوتا، ان سے نرمی سے بات کرتیں اور سختی نہ کرتیں۔ ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھتیں۔ اکثر پرانی کام کرنے والی عورتیں آجاتیں تو آپ ان کی بھی ضرور مدد کرتیں۔ سلسلہ کے بزرگان کا بے حد احترام کرتی تھیں اور ہمیں بھی اسی کی تلقین کرتی تھیں۔ اطاعتِ خلافت آپ کا شیوہ تھا۔ خلافت جوبلی کے جلسہ میں شمولیت کے لئے مجھے اور ڈاکٹر صاحب کو اصرار کے ساتھ لندن بھیجا۔ 27مئی کو جب حضور کا MTA پر خطاب نشر ہوا تو آپ کمزوری کی وجہ سے لیٹ کر دیکھ رہی تھیں لیکن جب عہد دہرانے کے لیے حضور نے فرمایا کہ کھڑے ہوکر میرے ساتھ یہ عہد دہرا لیں تو اطاعت میں بڑی چستی کے ساتھ کھڑی ہوگئیں اور عہد دہرایا۔ بعد میں اس فکر کا اظہار کرتیں کہ ہم اس عہد کو نبھانے والے کس طرح بنیں گے!۔
8ستمبر 2008ء کو جب آپ کے اکلوتے فرزند نے جام شہادت نو ش کیا تو میرے لیے یہ بہت کٹھن مرحلہ تھا کہ کس طرح آپ کو یہ اطلاع دوں ۔ آپ کی صحت کافی کمزور تھی۔ پیارے آقا اور آپا جان کا فون آیا تو دونوں نے بہت تسلّی دی اور کہا کہ آپ سلیمہ کو بتادو۔ پھر میں نے ہمت کی اور آپ سے کہا کہ حضور کا فون آیا ہے ہم نے صبر کرنا ہے، آپ نے بہت ہمت کرنی ہے، اتنا کہنا تھا کہ وہ سب سمجھ گئیں۔ فوراً کہنے لگیں اس کا مطلب ہے میرا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہے ، چلو مجھے اس کے پاس لے چلو۔
مَیں آپ کے صبر پر بہت حیران تھی کہ آپ تعزیت پر آنے والے مہمانوں کو بھی کہہ رہی تھیں کہ دیکھو رونا نہیں میرا بیٹا تو شہید ہوا ہے۔
آپ خود تو جنازہ کے ساتھ ربوہ نہ جاسکتی تھیں لیکن مجھے اور بچوں کو بڑی ہمت کے ساتھ رخصت کیا۔
بیٹے کی شہادت کے بعد پانچ ماہ کا عرصہ انتہائی صبر، ہمت اور حوصلہ سے گزارا۔ میری ہمت بندھاتی رہتیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہت اعزاز دیا ہے تم ایک شہید کی بیوی ہو کبھی غمگین نہ ہونا۔
ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد بے حد حوصلہ سے حضور سے بات کی اور کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہوں۔ حضور نے اپنے خط میں آپ کے حوصلہ کو سراہا۔ حضور انور نے تحریر فرمایا: ’’شہید کی وفات بھی ایسی وفات ہے جس میں جذبات کے دو دھارے چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف جانے والے کا افسوس اور خاص طور پر اگر ایسی شخصیت ہو جو بہترین بیٹا، بہترین خاوند، بہترین باپ، بہترین جماعتی کارکن، نافع الناس اور خلافت سے وفا اور اخلاص کے تعلق میں صف اوّل کا وفاشعار اور مخلص۔ لیکن دوسری طرف ایسی موت پر رشک بھی آتا ہے۔ جو اس دنیا کی زندگی میں ہر دلعزیز رہا اور مرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کے پیار کی آغوش میں فوری طور پر آگیا۔ …پس گو یہ صدمہ اس عمر میں آپ کے لئے بہت زیادہ ہوگا لیکن میں آپ سے فون پر بات کرکے حیران رہ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح آپ کو صبر اور حوصلہ دے کر حقیقت میں شہید کی ماں ہونے کا حقدار بنادیا ۔ …‘‘
بیٹے کی شہادت پر MTAپر جو پروگرام بنا اس کے لیے انٹرویو میں آپ نے یہ کلمات کہے:
’’ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں اور اللہ کے فرمان کے مطابق اِنَّا لِلّٰہ پڑھتے ہیں اور ہم وہی کہتے ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے پیارے بیٹے کی وفات پر کہا : ؎

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

دعا کریں میرے بیٹے کی قربانی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور … دعا کریں ہمارا بھی خاتمہ بالخیر ہو‘‘۔
آخری وقت میں اکثر اپنے پاس بٹھا لیتیں اور کہتیں کہ میرے پاس بیٹھ کر درود شریف پڑھو۔ پردے کی آپ بہت پابند تھیں۔ آخری عمر میں بھی ہسپتال جانا پسند نہ تھا۔ ڈاکٹر عبدالمنان صاحب کو بھی کہتیں کہ ہوسکے تو علاج گھر پر ہی کرنا مجھے دوسرے ڈاکٹروں کے حوالے نہ کرنا۔
آخری عمر تک آپ کی صحت ٹھیک تھی کوئی پیچیدہ بیماری نہ تھی۔ 2فروری 2009ء کو آپ کی وفات ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ میں اپنے بیٹے کے پہلو میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں