مکرمہ عائشہ رانجھی صاحبہ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ یکم فروری 2019ء)

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اگست و ستمبر 2012ء میں مکرم ماسٹر احمد علی صاحب نے اپنی والدہ محترمہ عائشہ رانجھی صاحبہ کا مختصر ذکرخیر کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہمارا گاؤں ادرحماںؔ حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ اور آپ کے والد حضرت مولوی نظام دین صاحبؓ کے احمدیت قبول کرنے کے بعد احمدی ہوگیا تھا۔ سارا گاؤں لنگاہ قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ 1925ء میں میری والدہ کسی غیرقوم سے ہمارے قبیلہ میں آنے والی پہلی خاتون تھیں اور رانجھہ قوم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے عائشہ رانجھی کہلائیں۔
میرے والد میاں تاج دین صاحب ایک خوش شکل اور خوش اخلاق انسان تھے جو اُس وقت اللہ کو پیارے ہوگئے جب میری عمر صرف چار سال تھی۔ ایک بھائی مجھ سے چھوٹا تھا۔ میری والدہ نے میری تعلیم و تربیت کا فریضہ نہایت صبرواستقامت سے ادا کیا۔ وہ حسنِ صورت اور حُسنِ سیرت کے زیور سے آراستہ تھیں۔ رمضان میں ہمارے قبیلہ کی مستورات میری والدہ سے قرآن کریم کی تلاوت سننے کے لئے ہمارے گھر اکٹھی ہوجاتی تھیں۔ چند غیرازجماعت عورتوں کو قرآن مجید پڑھنا بھی سکھایا۔ آپ صحتِ تلفّظ اور حُسنِ قراء ت سے تلاوت کیا کرتی تھیں۔ گہرا دینی علم رکھتی تھیں۔ میری ماں کو شرعی اور فقہی مسائل ازبر تھے۔ انہوں نے دینی علم اپنے نانا سے حاصل کیا تھا جو گہرا دینی علم رکھنے والے بزرگ تھے۔
چند غریب لوگ ہمارے ہاں سے لسّی لینے آتے تو میری والدہ لسّی میں کسی قدر مکھن بھی رکھ دیتیں۔ اگر کوئی مسافر گاؤں کی مسجد میں شب بسر کرتا تووہ میرے ہاتھ اُس کو چُپڑی روٹی اور گُڑ بھجوادیتیں۔ فصل گھر آتی تو چند مسکینوں کو بھی دانے دلوائے جاتے۔ میری تعلیم کے لئے خاص اہتمام کیا۔ سیم نالہ راستہ میں پڑتا تھا۔ ایک گھوڑی خریدی تاکہ سیم کے ٹھنڈے پانی سے گزرنے میں آسانی ہو۔ اُسی گھوڑی پر مجھے گاؤں سے تیرہ میل دُور امتحان سنٹر میں لے کر آئیں۔ ہم دونوں بھائیوں کی صحت کا خیال یوں رکھا کہ ہمیشہ شیردار بھینس کا انتظام رکھا۔
1947ء میں میری والدہ اپنے اکلوتے اور جوان بھائی کی وفات کا صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور ذہنی توازن درست نہ رہا۔ تاہم سیّدالاستغفار، سورۃ الملک، سورۃ یٰسٓ اور سورۃ الدخان جو اُنہیں ازبر تھیں، ایسی حالت میں بھی سُنا سکتی تھیں۔ جب میں نے ربوہ میں مکان بنالیا تو یہاں کا ماحول اُنہیں اتنا پسند آیا کہ گاؤں سے مستقل میرے ہاں آگئیں۔ نماز جمعہ میں شمولیت کے لئے تیار ہوکر پہلی اذان سے پہلے ہی مسجد اقصیٰ میں جا بیٹھتی تھیں۔ نظام وصیت میں شامل تھیں۔ 1985ء میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں