مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب شہید

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 4مارچ 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍ستمبر 2013ء میں مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جنہیں اورنگی ٹاؤن کراچی میں 18؍ستمبر کو شہید کر دیا گیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب ابن مکرم بشیر احمد کیانی صاحب 18؍ستمبر 2013ء کی صبح ساڑھے سات بجے موٹرسائیکل پر ملازمت کے لیے روانہ ہوئے، گھر سے ابھی کچھ دُور ہی گئے تھے کہ ایک سپیڈ بریکر پر جب موٹرسائیکل کی رفتار کم ہوئی تو دو موٹرسائیکل سوار آپ کے قریب آئے اور دو گولیاں آپ کی بائیں پسلیوں کے قریب فائر کیں جس سے آپ موٹرسائیکل سے نیچے گر گئے اور گرنے کے بعد اُٹھنے کی کوشش کی جس پر حملہ آوروں نے سامنے کی طرف سے آپ پر فائر کیے۔ خود کو بچانے کے لیے بایاں ہاتھ انہوں نے آگے کیا جس پر حملہ آوروں نے آپ کے ہاتھ پر فائر کیا اور پھر آپ کے سینے پر تین گولیاں فائر کیں۔ جب آپ گر گئے تو آپ کے سر پر پیچھے سے بھی ایک گولی فائر کی جس کی وجہ سے آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر شہید ہو گئے۔ گزشتہ ماہ آپ کے بہنوئی محترم ظہور احمد کیانی صاحب کو بھی اس علاقہ میں شہید کیا گیا تھا۔
مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد کے دو چچا مکرم محمد یوسف کیانی صاحب اور مکرم محمد سعید کیانی صاحب کے ذریعہ ہوا۔ آپ دونوں کو 1936ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کے والد کے دونوں چچا بڑے صاحب علم تھے، علم دوست تھے۔ انہوں نے باقاعدہ مطالعہ کرنے کے بعد بیعت کی توفیق حاصل کی تھی۔ شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق پریم کوٹ مظفر آباد آزاد کشمیر سے تھا۔ شہید مرحوم یکم دسمبر 1984ء کو کراچی میں پیدا ہوئے اور کراچی میں ہی انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ پھر پانچ سال قبل پاکستان ملٹری آرڈیننس میں بطور سویلین ڈرائیور ملازمت اختیار کی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 29سال تھی۔ شادی 2009ء میں ثوبیہ صاحبہ سے ہوئی جو راجہ عبدالرحمٰن صاحب آف کوٹلی کشمیر کی بیٹی تھیں۔ شہید مرحوم انتہائی مخلص، صلح جُو، نرم خُو اور خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ جماعتی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ تعاون کرتے تھے۔ جب کسی ڈیوٹی کے لیے بلایا جاتا تو ہمیشہ اطاعت کا مظاہرہ کرتے۔ ان کے بھائی مکرم اعزاز احمد کیانی صاحب نے بتایا کہ شہادت سے ایک روز قبل اپنے بہنوئی مکرم ظہور احمد کیانی صاحب شہید کے ذکر پرآبدیدہ ہو گئے۔ اُن کی بہت عزت کیا کرتے تھے اور بڑے بھائی اور باپ کا مقام دیا کرتے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرا کہ آپ نے اُن کے گھر جا کر اُن کے بچوں کی خیریت نہ معلوم کی ہو۔ اُن کی شہادت کا ان پربڑا گہرا اثر تھا۔
شہید مرحوم کی والدہ نے بتایا کہ چار بہنوں کے بعد بہت دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بیٹا عطا فرمایا تھا۔ سوچ سمجھ کے بات کیا کرتا تھا، میرے ساتھ انتہائی پیار اور عقیدت کا تعلق تھا، ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ہاتھ ملا کر خدا حافظ کہہ کر جاتا تھا۔ میری دوائی کا خاص خیال رکھتا تھا۔ بہنوں کا اس طرح خیال رکھتا جیسے بڑا بھائی ہو۔ بہت نرم طبیعت تھی۔ جب بھی گھر میں کوئی چیز لاتا تو خواہش ہوتی کہ سب کو دوں۔
ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ شہید مرحوم بہت اچھی طبیعت کے مالک تھے۔ ہر ایک کا فرض ادا کیا۔ اچھے بیٹے، اچھے بھائی، اچھے باپ اور اچھے شوہر تھے۔ کہتی ہیں جب کبھی مَیں پریشان ہوتی تو تسلی دیتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلاتے۔ بچوں کے ساتھ انتہائی شفقت کا سلوک کرتے۔ ان کے بہنوئی کی گزشتہ ماہ شہادت ہوئی تو بار بار کہتے رہے کہ کاش مَیں اُن کی جگہ ہوتا۔ شہید مرحوم نے پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ محترمہ، ایک بیٹی عزیزہ درّ عدن اعجاز عمر چار سال اور ایک بیٹا برہان احمد عمر ڈیڑھ سال چھوڑے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں