مکرم اللہ دتہ مبشر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14نومبر 2009ء میں مکرم اللہ دتہ مبشر صاحب کے بارہ میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
مکرم اللہ دتہ مبشر صاحب آف بھڑتھانوالہ ضلع سیالکوٹ پہلے اہل تشیع کے ذاکر تھے۔ نوجوانی میں خود احمدی ہوئے اور تبلیغ کے شیدائی تھے۔چنانچہ جب حضرت مصلح موعودؓ نے 27 دسمبر 1957ء کو جلسہ سالانہ پر وقف جدید کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ احمدی نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں اور میری ہدایات کے مطابق دعوت الی اللہ کا کام کریں تو مکرم اللہ دتہ مبشر صاحب نے بھی خود کو پیش کر دیا۔ گو آپ کی عمر 40 سال سے زائد تھی اور تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی مگر بنیادی دینی مسائل اور ان کے حل سے خوب واقف اور خدمت دین کے جذبہ سے بھرپور تھے اس لئے تعلیمی کمی کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کو وقف میں لے لیا گیا۔ آپ کو 1958ء سے 1978ء تک خدمت کی توفیق ملی۔ 1985ء میں آپ نے وفات پائی۔
آپ کی سادگی اور جذبہ نے بہت سی روحوں کو متأثر کیا اور ان کو قبول احمدیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ آخری عمر میں ان کی بینائی اور شنوائی کم ہوگئی تھی مگر خدمت دین کا جذبہ بڑھ گیا تھا۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ (ناظم ارشاد وقف جدید) آپ کی بہت عزت کیا کرتے تھے اور محبت سے پیش آتے تھے۔ بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں تبلیغ کے طریق بتاتے ہوئے مکرم اللہ دتہ مبشر صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’بعض دفعہ نفسیاتی لحاظ سے ایسے مواقع پیدا ہوجاتے ہیں جن میں ہدایت کو قبول کرنے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے۔ حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ ان اوقات سے بھی استفادہ کیا جائے اس لئے مختلف وقتوں میں مختلف قسم کی باتیں زیب دیتی ہیں اور اثر کرتی ہیں۔ مثلاً جب غم کی کیفیت ہو تو اس وقت اَور قسم کی بات کی جاتی ہے اور جب خوشی کی کیفیت ہوتو اَور طرح کی بات کی جاتی ہے اسی طرح جب خوف و ہراس کا زمانہ ہوتو اَور طریقے سے بات کرنا پڑے گی۔ اس سلسلے میں مجھے بہت سے دوست واقعات بتاتے رہتے ہیں۔ خود میرے علم میں ایسے بیسیوں واقعات ہیں ایک احمدی نے جب حکمت سے کام لیا اور موقع محل کے مطابق بات کی تو بہت جلدی اس کا پھل لگا۔ چنانچہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا ہمارے ایک معلم وقف جدید تھے جواَن پڑھ تھے۔ سو فیصدی تو نہیں لیکن اَن پڑھ کے قریب ترین جو آدمی ہوتا ہے وہ ان کی کیفیت تھی لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کی تبلیغ کو سب سے زیادہ پھل لگتا تھا کیونکہ جو علم کی کمی تھی وہ اس کو دعا اور حکمت سے پوری کرتے تھے۔ چنانچہ موقع اور محل کی تلاش میں رہنا اور حسب حالات گفتگو کرنا ان کا شیوہ تھا۔ کہیں شادی کی مجلس ہے تو شادی کی باتیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ کلام شروع کر دیا جو خوشی کے موقع کا کلام ہے۔ اگر غم کی کیفیت ہے تو اس میں صبر کی تلقین کرتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی واقعہ سنا دیتے کہ آپ کو جب دکھ پہنچتے تھے تو آپ یوں کیا کرتے تھے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت ہی حکمت عطا کر رکھی تھی۔ ایک مولوی صاحب تھے جو اُن کے بہت شدید مخالف تھے ایسے مخالف کہ کئی دفعہ ان کو مار پڑوا کر اپنے گاؤں سے باہر نکلوا چکے تھے۔ مگر یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دھن کے ایسے پکے اور ایسے بے خوف انسان تھے کہ کبھی پرواہ نہیں کی۔ بار بار ماریں بھی کھائیں مگر پھر بھی ان کے پاس پہنچ جاتے تھے یہاں تک کہ مولوی صاحب تھک گئے اور انہوں نے مارنا پیٹنا چھوڑ دیا۔ پھر تھوڑی بہت باتیں شروع ہوئیں لیکن مولوی صاحب اپنی ضد پر قائم اور یہ اپنے فرضِ تبلیغ پر قائم رہے۔ ایک دفعہ کسی کی تدفین کے لئے مولوی صاحب جارہے تھے تو یہ بھی ساتھ چل پڑے۔ جب وہ میت کو لحد میں اتارنے لگے تو اس وقت ان کو خیال آیا کہ مولوی نہ دلیل سے قابو آتے ہیں اور نہ تبشیر سے قابو آتے ہیں، ہوسکتا ہے ڈرپوک ہوں خوف سے قابو آجائیں۔ چنانچہ جب وہ میت کو لحد میں اتارنے لگے تو انہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ آگے بڑھ کر مولوی صاحب کو گریبان سے پکڑ لیااور کہا مولوی صاحب! ایک منٹ ٹھہر جائیں۔ مجھے یہ بتائیں کہ جہاں آپ اس مُردے کو داخل کر رہے ہیں یہ وہاں سے کبھی واپس آجائے گا۔ مولوی صاحب نے تعجب سے دیکھا اور کہا کہ کبھی مڑکر واپس نہیں آسکتا۔ یہ بولے کہ گویا اس کے اعمال کا دَور ختم ہوگیا، اب پھر اس کو اعمال کا موقع نہیں ملے گا۔ جو خدا نے اس سے پوچھنا ہے وہ اس سے پوچھے گا اور یہ بے بس ہوگا واپس نہیں جا سکتا، اپنے اعمال میں کچھ بھی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ مولوی صاحب نے کہا ٹھیک ہے۔ انہوں نے کہا پھر آپ کے ساتھ بھی یہی ہونا ہے اور یہ کہہ کر الگ ہوگئے۔ رات مسجد میں سوئے ہوئے تھے تو جس طرح حضرت مولوی راجیکی صاحب کا واقعہ آتا ہے ویسا ہی ملتا جلتا واقعہ ان کے ساتھ بھی پیش آیا۔ وہی مولوی صاحب آدھی رات کے وقت روتے پیٹتے پہنچ گئے کہ میری بیعت کرواؤ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی بیعت کرواتے ہیں لیکن یہ تو بتائیں ہوا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حساب کتاب ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھ سے سوال ہی یہ کیا کہ امام مہدی کا زمانہ پایا تھا تو تم نے کیا کیا۔ مَیں چیختا چلّاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مجھے واپس جانے دو، میں سمجھ گیا ہوں لیکن کہا گیا کہ اب کوئی وقت نہیں رہا۔ چونکہ ہمارے معلّم نے موقع اور محل کے مطابق بات کی تھی اور قرآن کریم نے وعدہ کیا ہے کہ اگر حکمت کے ساتھ بات کروگے تو اس کا پھل بھی پاؤ گے۔ چنانچہ وہ مولوی صاحب خدا کے فضل سے صرف احمدی ہی نہیں ہوئے بلکہ اتنے مخلص اور خوددار احمدی بنے کہ میں نے از خود یہ سوچ کر کہ وہ مولوی تھے ان کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں رہی ہوگی پیشکش کی کہ آپ کو وقتی طور پر جب تک آپ کو ضرورت ہے آپ کے لئے کچھ گزارہ مقرر کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا بالکل نہیں مَیں اپنا ایمان خراب نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ انہوں نے اسی گاؤں میں چھابڑی لگائی اور جو کچھ بھی روکھی سوکھی میسر آئی اس سے گزر اوقات کیا اور ایک مبلغ بن گئے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں