مکرم آصف کھوکھر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم اکتوبر 2011ء میں مکرم محمد انیس صاحب دیالگڑھی کے قلم سے اُن کے ایک عزیز دوست مکرم محمد آصف کھوکھر صاحب آف گوجرانوالہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مکرم آصف کھوکھر صاحب 9؍ستمبر 2007ء کو کینیڈا میں وفات پاگئے۔ آپ 1974ء میں گوجرانوالہ سے نقل مکانی کرکے ربوہ میں آبسے تھے۔ اُس سال احمدیوں کے خلاف ہونے والے فسادات کے دوران گوجرانوالہ میں آپ کے گھر کا مال و متاع لوٹ لینے کے بعد بھی جب ظالموں کے سینے کی جہنم ٹھنڈی نہ ہوئی تو وہ آپ کے والد اور بڑے بھائی کو کھینچ کر بالائی منزل پر لے گئے۔ ہر ستم آزمایا۔ جب مار مار کر تھک گئے تو بڑے بھائی اشرف کھوکھر صاحب نے سخت تکلیف کی حالت میں پانی مانگا تو ظالموں نے قریب پڑی ہوئی ریت اُن کے منہ میں ڈال دی اور پھر چھت سے نیچے گلی میں گرا دیا۔ پھر اُن کے والد مکرم افضل کھوکھر صاحب سے پوچھا کہ اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ وہ باپ دیکھنے میں تو بیٹے سے نسبتاً بوڑھا لگتا تھا مگر اس نے ظالموں کو جواب دیا کہ تم نے میرے نوجوان بیٹے کے ساتھ ایسا وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک میری آنکھوں کے سامنے کیا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس سے میری ہمت ٹوٹ گئی ہے تو یہ تمہاری غلطی اور بھول ہے۔ تم نے جو کر گزرنا ہے کرگزرو… اور وہ سفّاک کر گزرے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی خلافت کے آغاز میں ایک مجلس سوال و جواب میں باپ بیٹے کی عظیم الشان شہادت کا دردانگیز اور ایمان افروز واقعہ سنایا تھا۔
اس خاندان کی یہی قربانیاں تھیں کہ خلفاء احمدیت ہمیشہ مرحوم آصف کھوکھر سے بہت محبت کا سلوک کرتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ آپ کو اکثر پاس بلالیتے اور پُرشفقت گفتگو فرماتے۔ ایک دفعہ کچھ عرصہ کے بعد نظر آئے تو دیکھتے ہی حضورؒ نے پیار سے فرمایا: آصف! تم امریکہ گئے ہوئے تھے اتنے دن نظر نہیں آئے۔
ایک روز حضورؒ اپنی زمینوں سے واپس قصر خلافت تشریف لائے تو ہاتھ میں ایک چکوترا تھا۔ حضورؒ نے نہایت پیار سے آصف کھوکھرصاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: گریپ فروٹ۔ فرمایا: غلط۔ پھر حضورؒ نے فرمایا کہ یہ چکوترا ہے اور گریپ فروٹ سے اس کا فرق بھی بتایا۔ پھر وہی چکوترا آپ کو عطا فرمادیا۔ اور آپ نے یہ تبرّک اپنے دوستوں کے ساتھ تقسیم کرکے کھایا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی عنایات مرحوم کی فیملی پر ہمیشہ رہیں ۔ آپ کی ہمشیرگان کے رشتوں کے معاملات بھی حضورؒ نے طے فرمائے۔ ایک دفعہ سرِ راہ آپ کو دیکھا تو سائیکل سے اتر کر آپ سے ملے۔ (مضمون نگار لکھتے ہیں کہ) مَیں تو اس عظیم بزرگ کی شفقت اور محبت کے ساتھ اس کی بے تکلفی اور عاجزی پر بھی انگشت بدنداں تھا۔ شہادت کے بلند مرتبہ اور اس کی قدروقیمت کا ان لوگوں کو ہی اصل اندازہ تھا۔ ؎

کربلا کیا ہے کیا خبر اس کو
جس کے گھر میں یہ واقعہ نہ ہوا

پھر حضورؒ نے ایک دفعہ آپ کے ساتھ کار کے بونٹ پر بیٹھ کر ایک تصویر بھی بنوائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں