مکرم بشارت احمد ملک صاحب (آف جاپان)

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 14جنوری 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍مئی 2013ء میں مکرم ملک منیر احمد صاحب نے اپنے بھتیجے مکرم بشارت احمد ملک صاحب ابن مکرم ملک رفیع احمد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
بشارت احمد مرحوم کی پیدائش سے قبل ان کی دادی نے خواب میں دیکھا تھا کہ مرحوم کے دادا مکرم ملک بشارت احمد صاحب (واقف زندگی۔ سابق مینیجر نصرت آرٹ پریس ربوہ) آئے ہیں۔ چنانچہ نومولود بچے کا نام بھی بشارت احمد رکھا گیا۔ دادی نے اس کی تربیت کا خاص خیال رکھا۔ قرآن کریم پڑھایا اور نمازوں کی عادت ڈالی۔
بشارت احمد بہت ذہین بچہ تھا۔ ہمیشہ کلاس میں پوزیشن لیتا۔ یونیورسٹی میں بھی چوتھی پوزیشن لی۔ سافٹ ویئر پروگرامنگ کی چار سالہ ڈگری تین سال میں مکمل کرلی۔ اساتذہ اس کی تعریف کرتے۔ کلاس فیلوز کی مدد دلی خوشی سے کرتا۔ ٹوکیو میں مقیم ایک فلپائنی نوجوان نے اس کے کردار کو دیکھتے ہوئے اسلام میں دلچسپی لی اور آخر بیعت کرلی۔
بشارت احمد کو بچپن میں اُس کی والدہ انبیاء علیہم السلام کی کہانیاں سنایا کرتیں تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ بزرگانِِ سلسلہ کے قبول احمدیت کے واقعات سننے کا بہت شوق تھا۔ جب وہ یونیورسٹی گیا تو ایک روز سخت طوفانی بارش ہورہی تھی جب اُس نے اپنی والدہ کو فون پر بتایا کہ اُس کی چھتری کوئی لے گیا ہے تو والدہ نے کہا کہ وہاں کئی چھتریاں پڑی ہوں گی، کوئی ایک اٹھالو۔ اس نے جواب دیا کہ ایک احمدی ماں کو اپنے بچے کو یہ نہیں سکھانا چاہیے۔
نہایت سادہ اور منکسرالمزاج تھا۔ ہر کسی کا ہمدرد تھا۔ کبھی کسی کی برائی یا شکایت نہ کرتا۔ خوش الحان تھا۔ ٹوکیو میں مجلس خدام الاحمدیہ کا معتمد بھی رہا۔ بہت سے مواقع پر اردو سے جاپانی میں تراجم کی توفیق پائی۔ دعوت الی اللہ کا کوئی موقع ضائع نہ کرتا۔ اگرچہ کافی عرصے سے اُس کی طبیعت خراب چلی آرہی تھی جس کو وہ اپنی قوّت ارادی، صبر اور احساس ذمہ داری سے قابو میں رکھتا رہا۔ والدین کی دل جوئی اور اُن کی خدمت بھی کرتا۔ آخر 7؍ستمبر2012ء کو چوبیس سال کی عمر میں وفات پاگیا اور احمدیہ قبرستان ٹوکیو میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں