مکرم بشیر احمد کیانی صاحب شہید

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 4مارچ 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍نومبر 2013ء میں مکرم بشیر احمد کیانی صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جنہیں اورنگی ٹاؤن کراچی میں یکم نومبر 2013ء کو شہید کر دیا گیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکرم بشیر احمد صاحب کیانی جو مکرم عبدالغفور صاحب کیانی کے بیٹے تھے اورنگی ٹاؤن کراچی میں یکم نومبر کو شہید کردیے گئے۔ آپ اپنے ہمسائے محمد اکرم قریشی صاحب کے گیارہ سالہ بیٹے عزیزم محمد احمد واجد کے ہمراہ جمعہ کے لیے مسجد بیت الحفیظ کی طرف پیدل ہی جارہے تھے کہ مسجد کے قریب پہنچے تو پیچھے سے ایک موٹرسائیکل پر دو نامعلوم حملہ آوروں نے آ کر آپ پر فائرنگ کر دی۔ شدید زخمی ہو گئے۔ ایک گولی ان کو کنپٹی پر لگی، دو گولیاں سینے میں لگیں۔ ساتھ جانے والے بچے کی ٹانگ کی پنڈلی میں بھی ایک گولی لگی جو آر پار گزر گئی۔ بہرحال فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہاں پہنچ کر بشیر احمد کیانی صاحب کی شہادت ہو گئی۔ حملہ آوروں کی فائرنگ سے بازار میں کھڑے دو غیرازجماعت بھی زخمی ہوگئے۔
بشیر احمد کیانی صاحب شہید کے بڑے داماد ظہور احمد کیانی صاحب کو 21؍ اگست کو شہید کیا گیا تھا اور ان کے بیٹے اعجاز احمد کیانی کو 18؍ستمبر کو اسی علاقے اورنگی ٹاؤن میں دشمنانِ احمدیت نے شہید کیا تھا۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دو چچا مکرم یوسف کیانی اور سعید کیانی صاحب کے ذریعہ ہوا۔ 1936ء میں انہوں نے بیعت کی اور مطالعہ کرنے کے بعد جماعت مبائعین میں شامل ہوئے۔ بشیر کیانی صاحب میٹرک کی تعلیم کے بعد آرمی میں بطور سپاہی بھرتی ہو گئے اور 1979ء میں آپ کا ٹرانسفر کراچی ہو گیا اور یہیں سے آپ ریٹائر ہوئے۔ مرحوم کی عمر 68 سال تھی۔ بڑے خوش اخلاق تھے اور جذباتی طبیعت کے مالک تھے۔ دعوتِ الی اللہ کے انتہائی شوقین تھے۔ جب کہیں موقع ملتا تو دوست احباب کو تبلیغ کرتے۔ انتہائی دلیر اور بہادر شخصیت کے مالک تھے۔ یکے بعد دیگرے داماد اور بیٹے کی شہادت کے بعد خوفزدہ نہیں تھے بلکہ اپنی اولاد کو حوصلے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ شہادت کے روز اپنے بیٹے اعزاز احمد کیانی کو کہا کہ ہم نے خود اپنی حفاظت کرنی ہے اور یہاں سے جانا نہیں۔ قائد علاقہ لکھتے ہیں کہ ان کے بیٹے اعجاز کیانی صاحب کی شہادت کے بعد جب وہ خاندان کے افراد کو چھوڑنے کے لیے ائیرپورٹ گئے تو اعجاز کیانی صاحب شہید کی والدہ کے غم کی حالت کو دیکھتے ہوئے وھیل چیئر منگوائی، جسے دیکھ کر بشیر کیانی صاحب نے کہا کہ ابھی تو میرا ایک ہی بیٹا شہید ہوا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ ہم ابھی سے بیٹھ جائیں؟ غیرت رکھنے والے تھے۔ سعودی عرب میں ان کی آرمی سروس کے دوران پوسٹنگ ہوئی لیکن شرط یہ تھی کہ اپنے پاسپورٹوں پر احمدیت کا نام نہ لکھیں۔ انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا۔ بے شک مَیں نہ جاؤں، یہ شرط مجھے قبول نہیں۔
ان کی ایک عزیزہ نے لکھا کہ کراچی میں آپ کے دو عزیز شہید کر دیے گئے تو میں نے اُن کو کہا کہ کراچی چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ بڑے غم کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے، آنکھوں میں آنسو تھے تو ایک دم جھکی ہوئی کمر کو سیدھی کر کے کھڑے ہوگئے۔ کہنے لگے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ ہم نے تو احمدیت کو زمین کے کناروں تک پھیلانا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ کراچی چھوڑ دیں۔ یہ قربانیاں ہمارے حوصلے کو بلند کرنے والی ہیں، دشمن ہمارے ایمان کمزور نہیں کر سکتا۔
شہید مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ فاطمہ بشیر کیانی صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اعزاز کیانی اور شہباز کیانی نیز پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ طاہرہ ظہور کیانی جو شہید کی بیوہ ہیں۔ پھر ناہیدہ طیب، شاہدہ بشیر، ساجدہ بشیر اور وجیہہ کنول۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں