مکرم حمید المحامد صاحب مرحوم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ر بوہ 14نومبر 2012ء میں مکرم حمیدالمحامد صاحب کا ذکرخیر مکرم مجیب الرحمن صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے
مکرم حمید المحامد صاحب 18؍ اکتوبر 2009ء کو حرکت قلب بند ہوجانے سے وفات پاگئے۔ ؎

موت حامدؔ یوں گلے اٹھ کر ملی
جیسے ہم سے تھی شناسائی بہت

مرحوم میرے چچازاد بھائی تھے۔ مجھ سے دو تین سال ہی بڑے تھے اور یوں اُن کا بچپن جوانی اور بڑھاپا میری نظروں کے سامنے ہے۔ بچیاں بیاہ دی تھیں، بیٹے برسرروزگار ہیں، خود ریٹائرمنٹ کے بعد ایک نہایت آسودہ اور مطمئن زندگی گزار رہے تھے اور ہر لمحہ گویا اپنی وفات کے لئے تیار تھے۔ اپنی ایک مناجات میں تمنا کا اظہار یوں کیا تھا ۔ ؎

پردہ سرکاؤں ذرا صبح کا چہرہ دیکھوں
اے خدا تیری عنایات کا جلوہ دیکھوں
تجھ کو پاؤں میں سدا دل کے نہاں خانے میں
خود سے باہر بھی سدا تجھ کو ہی برپا دیکھوں
ہر گھڑی مجھ پہ قیامت کی گھڑی ہے حامد ؔ
داور حشر میں بخشش کا اشارہ دیکھوں

بوقت وفات جماعت احمدیہ اسلام آباد میں بطور قاضی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ یہ گویا ان کے تقویٰ اور معاملہ فہمی پر اعتماد کی سند تھی۔ اس سے پہلے اسلام آباد کی جماعت کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ طبیعت میں نظم و ضبط، سلیقہ اور نفاست کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ معاملات کو بر وقت ترتیب کے ساتھ سرانجام دینے اور ریکارڈ مرتب کرنے کی بھرپور صلاحیت تھی۔ایک وقت میں سیکرٹری تعلیم القرآن بھی تھے ۔ خدمت قرآن کا ایک جذبہ تھا اور لگن تھی اور یہ جذبہ انہوں نے ورثہ میں پایاتھا۔ ہمارے دادا قاری نعیم الدین بنگال کے ایک دُور افتادہ علاقہ میں پیدا ہوئے۔ نہایت خوش الحان قاری اور بااثر واعظ کی حیثیت سے علاقہ بھر میں شہرت پائی۔دلسوز اور دلگداز وعظ کے لئے مشہور تھے۔ قرآن سے ایک دلی لگاؤ اور محبت ان کی اولاد در اولاد میں منتقل ہوا اور حمید المحامد صاحب نے بھی اس سے وافر حصہ پایا۔ اپنی اولاد کو صحت کے ساتھ قرآن پڑھانے اور سکھانے کی طرف بھی توجہ رہتی تھی۔ مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیوہ ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
میرے والد مولانا ظل الرحمن صاحب اور چچا صوفی مطیع الرحمن صاحب تو زمانہ طالبعلمی میں ہی احمدی ہوکر قادیان آ گئے تھے۔ تربیت پانے کے بعد میرے والد تو بنگال میں مربی مقرر کئے گئے اور چچا مبلغ بن کر امریکہ چلے گئے۔ 1934ء میں تحریک جدید کے مطالبہ کے مطابق ہمارے والد نے ہمیں قادیان لا کر آباد کر دیا۔حمیدالمحامد صاحب کے والد (میرے تایا) بھی احمدی تو جلد ہی ہوگئے تھے، مگر سرکاری ملازمت میں تھے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1940ء میں وہ بھی مستقل طور پر قادیان کے پاکیزہ ماحول میں آبسے۔
برادرم حمید صاحب نے حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ کو مسجد میں نوافل اور نمازیں ادا کرتے ہوئے دیکھا تھا اور ان کے انہماک اور خشوع و خضوع کا دل پر زندگی بھر کے لئے گہرا اثر تھا۔ اکثر اُن کی نمازوں کی کیفیت بیان کیا کرتے اور خود بھی نیم سرگوشی کے عالم میں نماز پڑھنا پسند کرتے کہ دل کے ساتھ ساتھ زبان اور اپنے کان سب ہی اس عبادت میں شامل ہوں۔ اپنے گھر میں اور بچوں میں قادیان کا ماحول بڑی حد تک قائم رکھا ہوا تھا۔
بشری اورشخصی کمزوریاں کس میں نہیں ہوتیں مگر اخلاق و کردار میں کسی کمزوری کا شکار کبھی نہیں ہوئے۔ ڈرتے ڈرتے زندگی گزاری۔ اپنی اس کیفیت کو مرحوم نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا: ؎

بزدلی میری مری راہ کی راہبر ٹھہری
ورنہ امکان بہت تھے میری گمراہی کے

اور اسی غزل کا مقطع یوں ہے ؎

زندگی عشق کے شعلوں میں گزاری حامد
ہاتھ آئے نہ کبھی عقل کی بد خواہی کے

مرحوم سچے سیدھے اور صاف احمدی تھے۔ خلافت سے عقیدت اور پیار کے ساتھ اور دلی جذبہ کے ساتھ اطاعتِ خلافت کے عادی تھے۔ وفات کے بعد ان کی ایک ڈائری پر نظرڈالی جس میں مریم شادی فنڈ اور دیگر مدات میں معین رقم مستقل طور پر ادا کرنے کا عہد کر رکھا تھا اور یہ عہد بھی درج تھا کہ ہر نئی تحریک جو خلیفۂ وقت کی طرف سے ہو گی اس میں اس قدر رقم ادا کیا کروں گا۔
افتاد طبع ایسی تھی کہ حلقۂ احباب کبھی بہت وسیع نہیں ہوا۔ خاموش طبع اور بے ریا انسان تھے، ذاتی نمود و نمائش یا آگے بڑھ کر خودنمائی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ جو کام سپرد کیا جاتا یا تسکین قلب و نظر کی خاطر خود اپنے شوق سے اپنے ذمہ لیتے اسے بھی سنوار کر کرنے کے عادی تھے۔ خط اور تحریر ایسی تھی کہ ایک ایک لفظ سلیقہ سے موتی کی طرح پرویا ہوا نظر آتا تھا اور تحریر کتنی ہی طویل ہو، پہلے فقرہ سے لے کر آخری فقرہ تک ایک جیسا حسن قائم رہتا تھا۔ اور جو حسن ترتیب تحریر میں وہی ٹھہراؤ زندگی میں بھی تھا۔ مرنجاں مرنج آدمی تھے مگر فضول خوش گپیوں میں وقت نہیں گزارتے تھے۔
آپ نے لٹریچر میں ایم اے کر رکھا تھا اور حامد برگی کے نام سے انشائیے لکھتے تھے۔ انگریزی ادب کی تاریخ اور اس کی باریکیوں اور تنقید کے اصولوں اور نظریات سے پوری واقفیت رکھتے تھے۔ نہایت ستھرا اور پاکیزہ ادبی ذوق رکھتے تھے اور خود بھی ایک معروف انشائیہ نگار تھے۔ انشائیوں کے دو مجموعے ’’با انداز دگر‘‘ اور ’’ہمہ جہت‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔اردو ادب میں انشائیہ نگاری کے فن پر ان کی بعض تحریروں نے سند کا درجہ حاصل کیا اور برصغیر ہند میں جگن ناتھ آزاد کے پایہ کے لوگوں نے یونیورسٹی میں اپنے طلباء کو ان کی تحریرات پڑھنے کا مشورہ دیا۔ ان کے انشائیے پاکستان اور ہندوستان کے مستند ادبی رسالوں میں شائع ہوتے رہے اور ڈاکٹر وزیر آغا نے ان کو اردو کے سینئر انشائیہ نگاروں میں شمار کیا ہے۔ پروفیسر غلام جیلانی اصغر نے لکھا کہ ’’ میں جب حامد برگی کا کوئی انشائیہ پڑھتا ہوں تو مجھے خوشگوار موسم اور کھلی فضا کا احساس ہوتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر انورسدید کہتے ہیں۔ ’’وہ متوازن دماغ سے موضوع کے بند سیپ کو کھولتے ہیں اور بڑی محبت آمیز مسکراہٹ سے قاری کی ہتھیلی پر ایک چمکتا ہوا موتی رکھ دیتے ہیں‘‘۔
شعر بھی کہتے تھے اور حامد تخلص کرتے تھے۔ اپنے شعری مجموعہ کے پیش لفظ میں لکھا ،’’شاعر کہلانا مجھے کبھی مرغوب نہ تھا لیکن میں شاعر تھا بچپن سے ہی۔ 70 کی دہائی میں قومی سانحات و حادثات سے ہی دل و دماغ نے شدید اثر قبول کیا‘‘۔ پھر مختلف موضوعات پر لکھا۔ 74ء کے پُرآشوب دَور پر بھی نظمیں کہیں۔
ڈائری لکھنے کی عادت تھی، جو غالباً تاریخ وار تو نہیں تھی، مگر بڑی باقاعدگی سے لکھتے تھے۔ ڈائری میں اپنے گردوپیش، اپنے ماحول اور اپنے جذبات کو الفاظ میں منتقل کرتے تھے۔ وہ ڈائری بذات خود ایک ادبی شاہ پارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس ڈائری کو تسبیح روز و شب کا نام دے رکھا تھا اور سرنامہ پر یہ شعر درج تھا ؎

مری صراحی سے قطرہ قطرہ مئے حوادث ٹپک رہی ہے
میں اپنی تسبیح روزو شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ

جیسا ڈائری کا نام تھا ، فی الواقعہ اپنی زندگی کے ماہ و سال اور روز و شب کو دانہ دانہ شمار کیا۔ ؎

لمحہ لمحہ گزارئیے حامد
زندگی خود بسر نہیں ہوتی

اور ؎

ہر غزل سلک تصور ہے کہ حامدؔ جس میں
لفظ پر لفظ پروتے ہیں گہر کی مانند

اور بڑے حساب سے زندگی یوںگزاری کہ ؎

منزل رہی ہمیشہ ہی منزل کے سامنے
جادہ ہو اپنا جیسے نگر سے نگر تلک
حامد ؔبس اس قدر ہی مسافت تھی زیست کی
چلتے رہے ہوں جیسے سحر سے سحر تلک

ہر وقت یہ احساس تھا کہ ؎

کونسی منزل پہ جا کر جادۂ ہستی رُکے
کونسے لمحے پہ رُک جائے یہ لمحوں کا سفر

عاقبت ہمیشہ سامنے تھی ؎

فکر امروز و دوش کیا حامدؔ
فکر یوم حساب میں گم ہیں

آپ نے بطور انشائیہ نگار شہرت پائی مگر غزل گوئی میں بھی اچھے اچھے شعر مرحوم کے قلم سے نکلے۔ ان کے شعری مجموعہ’’ دشت طلب‘‘ کو اٹھا کر جو دیکھا تو اکثر غزلوں کے مقطع میں ان کی شخصیت کی جھلک نظر آئی۔ پوری زندگی میں حزن اور اداسی کی ایک چھاپ تھی جس کا شعروں میں بھی اظہار ہو جاتا تھا۔ ؎

حامدؔ دکھ کے لاکھ سمندر ہیں
سکھ کے ایک سفینے میں

اور یہ بھی ؎

اشک حامدؔ ہیں لفظ سے موتی
جن کو پلکوں میں روکے بیٹھا ہوں

صلح کل طبیعت رکھتے تھے اور جماعت کے اس مزاج کو خوب پہچانتے تھے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ؎

نفرتیں کچھ خمیر ہی میں نہ تھیں
ہم نہ کرتے جو پیار ، کیا کرتے

احمدیت کے لئے غیرت رکھتے تھے اور جب کبھی کسی اخبار میں جماعت کے خلاف غلط قسم کاکوئی مضمون شائع ہوتا تو بہت تکلیف محسوس کرتے اور فوراً مذکورہ اخبار کو مراسلہ لکھنے بیٹھ جاتے۔ ان کے ایسے کئی مراسلے، راولپنڈی اسلام آباد کے روزناموں میں شائع بھی ہوئے۔
ربوہ سے محبت تھی اور بہشتی مقبرہ میں جگہ پانے کی تڑپ دل میں رکھتے تھے۔ ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ کے ماحول سے متأثر ہو کر ’’دیار دل‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس کا پہلا بند یوں تھا۔ ؎

چاند حیرت سے تک رہا تھابلند پتھر فصیل شب سے
یہ صدیوں ویران وسعتوں کو بسا دیا ہے کسی نے کب سے
یہ شور کیسا ہے گونج کیسی ہے نعرۂ حق و ہو ہے کیسا
یہ کون مخلوق آ بسی ہے یہاں کہ ہے اژدہام جیسا
یہ دشت و صحرا کی چلچلاتی فضا میں باد بہار کیسی
یہ پھول گلشن مہک اٹھے، ہو گئی ہوا مشکبار کیسی

ایک نظم میں لکھتے ہیں: ؎

یہ کن دیاروں کے رہنے والے، کہاں سے چل کر کہاں پہ آئے
یہ خاک کیا ہے کہ جس کے ذرّے فلک سے تاروں کو کھینچ لائے
یہ کیسے ساحل ہیں جن سے طوفان سر پٹک کر پلٹ گئے ہیں
کہ جن کی آغوش میں حوادث بھی موج بن کر سمٹ گئے ہیں

اور آخر میں بہشتی مقبرہ کے ذکر میں دلی کیفیات کو کچھ یوں بیان کیا۔ ؎

یہ کیسی وادی ہے جس جگہ پر ہے موت پر رشک زندگی کو
یہیں کہیں عافیت کا گوشہ ملے ہے حسرت یہاں سبھی کو
فنا کی گودی میں بسنے والوں سے رابطہ ان کو کس قدر ہے
کہ وقت گلگشت کتنی مشتاق ہر قدم پر ہر اک نظر ہے
یہ کیسی یادوں کی انجمن ہے یہ کیسی سوچوں کے سلسلے ہیں
یہ شمعیں گل ہو کے بھی فروزاں، یہ پھول کملا کے بھی کھلے ہیں

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں