مکرم حکیم عبد العزیز صاحب

محترم حکیم عبدالعزیز صاحب 1911ء میں پیرکوٹ ثانی ضلع حافظ آباد میں پیدا ہوئے ۔ آپ سکول کی تعلیم تو حاصل نہ کر سکے لیکن قدرتی طور پر ذہین ہونے کی وجہ سے فارسی ، عربی اور علم طب کی کچھ کتابیں پڑھ لیں اور قبولِ احمدیت کے بعد تو مطالعہ کے شوق میں ایک بڑی لائبریری اپنے گھر میں بنالی جو آپ کے منجھلے صاحبزادے مکرم حکیم منور احمد صاحب عزیز کے پاس موجود ہے اور انہوں نے ہی ’’بزم عزیزؔ‘‘ تشکیل دی ہے جس کے تحت ہونے والے ایک مشاعرہ کی روداد روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3 2جون 2010ء میں (از قلم مکرم محمد مقصود احمد صاحب ) شائع ہوئی ہے۔
محترم حکیم عبدالعزیز صاحب نے 1932ء میں ایک خواب کی بنیاد پر قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپ نے 25سال کی عمر میں تعلیم بالغاں کی سکیم کے تحت پرائمری پاس کی۔ آپ کی شادی پیرکوٹ ثانی میں ہی حضرت میاں کرم دین صاحبؓ کی بیٹی مکرمہ بخت بھری صاحبہ سے ہوئی۔ اس جوڑے کو اللہ تعالیٰ نے 3 بیٹوں اور 2 بیٹیوں سے نوازا۔
قبول احمدیت کے بعد محترم حکیم صاحب ہجرت کر کے نزدیکی گاؤں چک چٹھہ میں آن بسے۔ یہاں آپ پہلے احمدی تھے۔ چنانچہ میاں بیوی گھر پر ہی نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آپ کی بڑی شدید خواہش تھی کہ سڑک کے کنارے پر ایک بڑی مسجد تعمیر کی جائے جہاں پر باجماعت نمازیں ادا کی جائیں۔ اس مقصد کے لئے آپ نے برلب سڑک دو مرلہ زمین خرید کر اس کی بنیادیں بھریں اور مسجد کی شکل دے کر نمازوں کی ادائیگی شروع کر دی۔اس مسجد کی نہ چھت تھی نہ دیواریں۔اکثر اوقات آپ اذان کہتے اور کسی بچہ کو ساتھ کھڑا کر کے نماز باجماعت ادا کر لیتے تھے۔ ایک بار گاؤں کے ایک چودھری نے مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے کہا کہ اکیلے نماز پڑھتے ہو، ہمارے ساتھ پڑھ لیا کرو۔ جس پر حکیم صاحب نے فرمایا کہ تم دیکھنا کہ ایک دن اسی اذان پر بہت سارے نمازی آیا کریں گے۔ چنانچہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے اور اسی جگہ آٹھ مرلے کی عالیشان مسجد تعمیر ہو چکی ہے جس میں پانچوں نمازیں باجماعت ادا کی جاتی ہیں۔
محترم حکیم صاحب احمدیت کے حق میں ایک ننگی تلوار اور ایک پُر جوش داعی الی اللہ تھے۔ آپ کی وفات 1988ء میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کی وفات 1994ء میں ہوئی اور وہ بھی بہشتی مقبرہ میں ہی مدفون ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں