مکرم حکیم محمد اعظم طاہر صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13 مارچ 2010ء میں مکرم عطاء العلیم شاہد صاحب نے محترم حکیم محمد اعظم صاحب شہید آف اوچ شریف کا مختصر ذکرخیر کیا ہے۔ مرحوم کی شہادت کا ذکر قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 15جون 2012ء کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔ جبکہ 26 اپریل 2013ء کے شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی شہید مرحوم کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کو 15 مئی 2009ء کو جماعت احمدیہ اوچ شریف میں خدمت سلسلہ کے لئے بھیجا گیا تو وہاں کے سیکرٹری مال حکیم محمد اعظم صاحب سے بھی تعارف ہوا۔ آپ کا گھر نماز سینٹر سے بہت دُور تھا اس لئے وہاں ایک اور نماز سینٹر کھولا گیا جو حالات کے پیش نظر بند ہوگیا تھا۔ اب دوبارہ جب مرکز کی ہدایت ملی تو مجھے کہنے لگے کہ آپ ایک نماز ہمیں بھی پڑھانے آیا کریں۔ چنانچہ ایک نماز کے لئے مَیں وہاں جانے لگا اور نماز کے بعد ’’حقیقۃالوحی‘‘ سے درس کا سلسلہ بھی جاری کیا گیا۔ آپ نماز باجماعت کے بڑی باقاعدگی سے پابند تھے۔ اگر خاکسار کسی عذر کے باعث نہ جاسکتا تو آپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نماز باجماعت ضرور ادا کرتے۔
آپ طبیہ کالج ربوہ میں بھی حکمت کی تعلیم حاصل کرتے رہے تھے۔ آپ کاخاندان شروع سے ہی حکمت کے پیشہ سے منسلک ہے۔ چنانچہ آپ کے خاندان میں آپ کے دادا جان سے پہلے بھی چار حکیم گزرے ہیں۔ آپ کے والد حکیم محمد افضل صاحب بڑے خوش ہوتے تھے کہ میرے خاندان میں بچوں میں چلو ایک تو حکیم بنا ہے۔
مرحوم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے جس کا اظہار نہ صرف احمدی احباب نے کیا بلکہ غیرازجماعت دوستوں نے بھی کیا۔ خصوصاً آپ جس سرکاری ہسپتال میں کام کرتے تھے وہاں غریب آپ کے پاس علاج کے لئے آتے تو ان کی پرچی فیس بھی آپ خود ادا کرتے۔ آپ کے ہسپتال میں بڑے عہدے کے ڈاکٹرز بھی تھے مگر لوگ ان کو چھوڑ کر آپ سے علاج کرواتے کہ ڈاکٹر اعظم سے علاج کروانا ہے اس لحاظ سے بعض ڈاکٹروں کو شہید مرحوم سے حسد بھی تھا۔ آپ کی شہادت پر مقامی اخبار کیبل (Cable) پر بھی آپ جیسے ڈاکٹر کے چلے جانے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
گو کہ آپ سیکرٹری ضیافت بھی تھے مگر آپ کی یہ صفت تھی کہ مہمان نوازی بڑی اعلیٰ درجہ کی کرنے والے تھے۔ ربوہ سے آنے والے مہمانوں کا خاص طور پر خیال رکھتے اور پُرتکلّف مہمان نوازی کرتے۔
بہت دھیما بولنے والے تھے۔ اپنے بچوں کو یہ ہمیشہ تلقین کرتے رہتے کہ جماعت کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا ہے۔ شہادت سے چند دن قبل عید کے موقع پر جب عید فنڈ، فطرانہ اور دیگر چندہ جات جمع ہو گئے اور آپ گھر میں ایک شادی کی وجہ سے خود بہاولپور نہ جا سکتے تھے تو اپنے بیٹے کو اصرار کے ساتھ کہا کہ آج ہی یہ چندہ جمع کروا کر آؤ۔ بچے نے شاید شادی کی خوشیوں کی وجہ سے تھوڑا لیت و لعل سے کام لیا تو تھوڑی سختی سے کہا کہ نہیں تم نے ہر صورت آج جاکر چندہ جمع کروانا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی ذمہ داری کا کتنا احساس تھا اور شاید آپ کو اپنے آخری وقت کا علم ہو چکا تھا ورنہ چندہ تو شادی کے بعد بھی کسی دن بھیجا جاسکتا تھا۔ آپ کی شہادت سے قبل آپ کے علاوہ آپ کی اہلیہ اور بعض دوسرے افرادِ خاندان نے بھی اس حوالہ سے خوابیں دیکھی تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں