مکرم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 16؍اپریل 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍فروری 2013ء میں مکرم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ کے بارے میں مکرم محمود احمد ملک صاحب کا ایک مختصر مضمون شائع ہوا ہے۔
احمدیوں پر جتنے بھی مقدمات بنائے گئے مکرم خواجہ صاحب ان کی پیروی کے لحاظ سے صف اوّل میں شامل تھے۔ آپ کوکسی رسمی اطلاع کی ضرورت نہ تھی۔ جیسے ہی آپ کو علم ہوتا خود رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کردیتے۔ ہر تاریخ پر مقررہ وقت سے پہلے ہی کمرۂ عدالت میں موجود ہوتے جیسے وہ اسی کام کے لیے بنے تھے۔
حافظ آباد کے امیرجماعت اور چند دیگر افراد کے خلاف ایک بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا۔ مکرم خواجہ صاحب ہر تاریخ پر سیالکوٹ سے حافظ آباد تشریف لاتے۔ دونوں شہروں کے درمیان اُس وقت سنگل سڑک تھی اور سفر کافی دشوار تھا۔ ایک بار مَیں نے پوچھا کہ آپ اتنا لمبا سفر کرکے عدالت پہنچتے ہیں اور جاتے ہی آپ کو علم ہوتا ہے مقدمے کی کارروائی مُلتوی ہوگئی ہے تو آپ کے احساسات کیا ہوتے ہیں؟ حسب معمول دلفریب مسکراہٹ سے بولے کہ مَیں تو اس وقت خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے خدمت کا ایک اَور موقع عطا کردیا۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ میرے خلاف کلمہ طیبہ کے تین مقدمات درج ہوئے۔ جتنے سال بھی چلتے رہے مکرم خواجہ صاحب ہر تاریخ پر وقت کی پابندی کے ساتھ گوجرانوالہ آتے رہے۔ کبھی بھی آپ کو یاددہانی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ایک بار خاکسار نے پوچھا کہ آپ سلسلے کے مقدمات کے سلسلے میں عموماً اپنے شہر سے باہر رہتے ہیں تو کیا اس کا آپ کی وکالت پر کوئی منفی اثر تو نہیں پڑتا؟ یہ سن کر آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ کھڑے ہوگئے۔ فرمایا کہ مَیں سلسلے کی خاطر جاؤں اور میرا نقصان ہوجائے! یہ کیسے ممکن ہے۔ میرے شہر سے باہر ہونے کی صورت میں میرے سائل آٹھ آٹھ دن فیس ہاتھوں میں پکڑے ہوئے میرے دفتر میں انتظار کرتے رہتے ہیں۔
1988ء میں تلونڈی موسیٰ خان میں ایک جلسہ ہوا جس میں دو مرکزی نمائندگان اور نو مقامی افراد پر 295-C کا مقدمہ بنادیا گیا جس کا ٹرائل کافی عرصہ چلتا رہا۔ مجھے بھی اس دوران آپ کی معاونت کی توفیق ملی۔آپ کا استدلال انتہائی خوبصورت اور مدلّل ہوا کرتا۔ جس عدالت میں بھی پیش ہوتے عدالت کا رویہ آپ کے ساتھ دوستانہ رہتا۔ آپ نہایت ہی مختصر اور To the point بحث کرتے۔ کبھی مَیں نے کسی بھی جج کو آپ کو ٹوکتے نہیں دیکھا۔ ایسا بھی ہوتا کہ آپ کی بحث کے بعد مخالف فریق بحث سے معذرت کرلیتا۔
آپ انکساری کا پیکر تھے۔ کبھی اپنے کام کا احسان کسی پر نہیں دھرا بلکہ جیسے کام کرکے بھول جاتے۔ درویشانہ زندگی ایسی گزاری کہ بھرپور مصروف زندگی کے باوجود کوئی ذاتی سواری نہیں تھی۔ جب بھی آپ گوجرانوالہ تشریف لاتے اور خاکسار درخواست کرتا کہ مَیں اپنی کار میں آپ کو واپس لاہور یا سیالکوٹ چھوڑ آتا ہوں تو آپ یہ درخواست قبول نہ کرتے اور ہمیشہ فلائنگ کوچ پر جانے کا فیصلہ کرتے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو مکرم خواجہ صاحب سے خاص محبت تھی۔ 1984ء میں لندن روانگی سے پہلے حضورؒ نے جن اکابرین کو مشورے کے لیے ربوہ طلب کیا تھا آپ اُن میں سے ایک تھے۔ وداع کے موقع پر حضورؒ نے معانقے کے دوران اپنی کلائی سے راڈو گھڑی اتار کر آپ کو دے دی۔ (خلیفہ وقت کا ادب اتنا کہ)آپ نے بتایا کہ وہ گھڑی میرے لیے مسئلہ بن گئی کیونکہ اگر اتارتا تو بند ہوجاتی اور کیسے اُس کو اپنی کلائی پر پہن سکتا تھا جو خلیفۂ وقت کی کلائی کے لیے مخصوص تھی۔
آپ کو دل کی تکلیف تھی اور ڈاکٹروں نے بائی پاس تجویز کیا تھا لیکن آپ جماعتی مصروفیات کی بِنا پر اسے مُلتوی کرتے جاتے تھے۔ مکرم ناظر صاحب اعلیٰ نے کئی مرتبہ اس طرف توجہ دلائی لیکن آپ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ بس جماعت کے یہ اہم کیسز ختم کروالیں۔ لیکن جب آپریشن کا ارادہ کیا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔
آپ کی وفات پر سیالکوٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے ایک غیراحمدی جج صاحب نے فرمایا کہ آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کی کمیونٹی کا آج کتنا بڑا نقصان ہوگیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں