مکرم خواجہ عبدالکریم خالد صاحب درویش

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍مئی 2008ء میں مکرم عبدالباسط بٹ صاحب نے اپنے والد محترم خواجہ عبدالکریم خالد صاحب درویش قادیان کا ذکرخیر کیا ہے جن کی وفات 10؍ مئی 1986ء کو ہوئی تھی۔
محترم خواجہ عبدالکریم صاحب کے والد حضرت خواجہ عبدالواحد صاحبؓ عرف پہلوان ابن خواجہ عمرالدین صاحب کو 1896ء میں قبول احمدیت کی توفیق ملی۔ پہلے وہ اہل حدیث سے تعلق رکھتے تھے اور امام مہدی کی آمد کے قائل تھے۔ چاند اور سورج گرہن کی پیشگوئی پوری ہونے کے بعد آپؓ نے بیعت کا خط لکھ دیا اور مخالفت کے باوجود استقامت دکھائی۔
تقسیم ہند کے وقت حفاظت مرکز کی تحریک پر محترم خواجہ عبدالکریم خالد صاحب نے بھی لبیک کہا۔ دو اڑہائی سال قادیان میں رہے اور اس عرصہ میں حلقہ دارالمسیح کے زعیم خدام الاحمدیہ بھی رہے۔ ان کے والد صاحب کی پیرانہ سالی اور علالت اور فیملی کی نگہداشت کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں درخواست پر ان کو پاکستان آنے کی اجازت دی گئی۔ بعدازاں گوجرہ آکر آباد ہوئے اور جماعتی خدمات کا تسلسل جاری رکھا۔ بہت نیک، کم گو اور نمازوں کے پابند تھے۔ دعوت الی اللہ ان کا مشغلہ تھا۔ 1974ء میں اپنے گھر کو ایک وسیع دسترخوان میں تبدیل کرلیا۔ بہت بہادر تھے اور کسی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے۔ یتیموں کی خاص طور پر سرپرستی فرماتے۔ گوجرہ میں زعیم انصاراللہ، سیکرٹری امور عامہ اور سیکرٹری ضیافت کی خدمت پر مامور رہے۔ خلافت پر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے اور احکام خلافت کو اخلاص کے ساتھ ادا کرتے۔
بچوں کے ساتھ ان کا سلوک مشفقانہ تھا لیکن جماعتی پروگراموں میں ضرور شامل کرتے۔ موصی تھے اور ہومیوپیتھی کے مستند ڈاکٹر بھی۔ سارا دن اپنا سیمنٹ اور کوئلہ کا کاروبار کرنے کے بعد احمدیہ دارالمطالعہ گوجرہ میں آجاتے اور رات گئے تک ہومیوپیتھی کی فری ڈسپنسری چلاتے، احمدیوں اور غیراحمدیوں کا مفت علاج کرتے اور دوائی بھی مفت دیتے۔ دارالمطالعہ کی نگرانی بھی کرتے۔ اپنے دشمنوں کی مدد کے لئے بھی ہر وقت تیار رہتے ۔
آپکی وفات پر محترم سید احسن اسماعیل صدیقی صاحب نے جو نظم کہی، اُس میں سے انتخاب پیش ہے:

اخلاق فاضلہ کا وہ مظہر کہاں گیا
رونق تھی جس کے دم سے فزوں تر کہاں گیا
تھا جس کے دم سے گھر میں اک فردوس کا سماں
صد حیف کہ وہ نور کا پیکر کہاں گیا
جس نے اٹھائیں دین کی خاطر صعوبتیں
وہ مشکلات سہنے کا خوگر کہاں گیا
احباب اشکبار تو اغیار نوحہ زن
ان کی مسرتوں کا وہ محور کہاں گیا
ہر بات ہر ہر لفظ میں جادو جگا دیا
وہ بحر گفتگو کا شناور کہاں گیا
دین مبیں کا عاشق صادق تھا جو وجود
جنس وفا کا اب وہ سوداگر کہاں گیا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں