مکرم رانا محمد سلیم صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19 مارچ 2010ء میں مکرم رانا عبدالرزاق خان صاحب نے مکرم رانا محمد سلیم صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

قبل ازیں شہید مرحوم کا ذکرخیر 7 ستمبر 2012ء اور یکم مارچ 2013ء کے شماروں کے اسی کالم میں شامل کیا جاچکا ہے۔
مکرم رانا محمد سلیم صاحب نے ساری عمر ایک مجاہد کی طرح گزاری۔ بچپن سے خدمت کرتے ہوئے جب سانگھڑ منتقل ہوگئے تو خدام الاحمدیہ میں قائد ضلع اور قائد علاقہ ، پھر انصاراللہ میں ناظم ضلع مقرر ہوئے اور تا دَم آخر اس عہدہ پرکام کرتے رہے۔ آپ کے دَور میں ایک بار ضلع سانگھڑ سب اضلاع میں اول قرار پایا تھا۔ 2004ء سے نائب امیر جماعت احمدیہ ضلع سانگھڑ بھی خدمات بجالارہے تھے۔
آپ کردار کے بہت ہی اچھے تھے۔ بہت ہنس مکھ اور شستہ طبیعت کے مالک تھے۔خوش پوش اور خوش گفتار انسان تھے۔ مرحوم بہت سی خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ شفیق، ذہین، ہمدرد، غریب پرور، زندہ دل،نڈر اور دلیر تھے۔مہمان نواز اتنے کہ کسی مہمان کوبھی بغیر کسی تواضع کے ہرگز جانے نہ دیتے تھے۔ مرکزی مہمانوں کی آمد پر اپنی خدمات پیش کر دیتے اور دل وجان سے خدمت کرتے۔ جماعتی روپے کو بہت احتیاط سے خرچ کرتے اور اس کا باقاعدہ حساب رکھتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے۔ اپنی اکیڈمی میں مستحق طلباء کی فیس معاف کر دیتے تھے۔ حساب کا مضمون خود پڑھاتے تھے۔ طبیعت میں مزاح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔موقع کی مناسبت سے لطائف بھی سنایا کرتے تھے۔سب دوستوں میں یکساں ہر دلعزیز تھے۔اطاعت امیر میں سب کے لئے ایک مثال تھے۔ آپ کے سکول کے طلباء ہر رمضان المبارک میں اپنے جیب خرچ سے جو رقم جمع کرتے اس میں خود بھی حصہ ڈال کر فلاحی اداروں کو جمع کرواتے جوکہ دکھی انسانیت کے کام آتی تھی۔ ہر سال عید کے موقع پر سنٹرل جیل کے قیدیوں کو کھانا کھلاتے۔ اور بیسیوں قیدیوں کو رہا کروایا جو چند سو روپوں کی وجہ سے جیل میں پڑے ہوئے تھے۔ آپ کے ضلعی انتظامیہ اور عدلیہ کے افسران کے ساتھ مثالی تعلقات تھے۔ ان کی شہادت پر سب معزز ساکنان شہرنے رنج وغم کا اظہار کیا۔
آپ کی اہلیہ محترمہ منصورہ سلیمہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ 26 نومبر2009ء کی دوپہر کو مرحوم کہنے لگے کہ کل ہمیں تین خوشیاں ملنے والی ہیں۔ ایک تو میرا یوم پیدائش ہے، دوسرا حج کا بابرکت دن ہے، تیسراجمعے کا دن ہے۔ وہ اس دن معمول سے زیادہ خوش تھے۔ یہ خیال بھی نہ تھا کہ یہ دن اُن کی شہادت کا بھی ہے۔
محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کی شہادت کے بعد مرکزاور امیر صاحب کی طرف سے مکرم رانا صاحب کو اپنی حفاظت کے متعلق تاکید کی گئی تھی۔ مگر وہ حسب سابق ،اللہ مالک ہے کہہ کر ٹال دیتے تھے۔ شہادت کی شام مغرب کی نماز آپ نے پڑھائی اور درس دیا۔ جبمسجد کو تالا لگاکر گھر کو جانے لگے تو نقاب پوش بدبخت دشمن نے گولی چلائی جو آپ کی دائیں آنکھ سے گزر گئی۔ مجرم مو ٹر سائیکل پر فرار ہوگئے اور آپ ہسپتال کے راستے میں ہی دم توڑ گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں