مکرم رضی الدین صاحب شہید

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 10؍فروری 2023ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 11؍فروری 2014ء میں مکرم رضی الدین صاحب ابن مکرم محمد حسین صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جو 8؍فروری 2014ء کو اپنے گھر سے کام پر جانے کے لیے نکلے تھے کہ ان کو شہید کر دیا گیا۔ سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 14؍فروری کے خطبہ جمعہ میں مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
شہادت کے روز کراچی میں ہڑتال تھی۔ ان کی اہلیہ نے اُنہیں کہا بھی کہ کام پر نہ جائیں لیکن یہ پھر بھی کام پر جانے کے لیے تیار ہوئے۔ اپنے بھتیجے کے ہمراہ ابھی گھر سے کچھ فاصلے پر ہی پہنچے تھے کہ دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے اور انہوں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ ایک گولی آپ کی گردن میں لگی جس نے سانس کی نالی کو زخمی کر دیا۔ اہلیہ ان کو فوری طور پر ہسپتال لے گئیں جہاں ڈاکٹر نے ہر ممکن کوشش کی لیکن آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما گئے۔
آپ محمد حسین مختار صاحب کے بیٹے تھے۔ آباءو اجداد کا تعلق مینڈر ضلع پونچھ کشمیر سے تھا۔ مینڈر کے دو بزرگان نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اور واپس آ کر تبلیغ شروع کر دی جس کے نتیجہ میں شہید مرحوم کے پڑدادا مکرم فتح محمد صاحب نے بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت کی توفیق پائی تھی۔ شہید مرحوم کے دادا کا نام مکرم مختار احمد صاحب تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان گوئی ضلع کوٹلی میں آباد ہوا۔ 1992ء سے کراچی میں رہائش اختیار کرلی۔
شہید مرحوم نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ ایک فیکٹری میں چھ سال سے ملازم تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 26 سال تھی۔ نہایت ہمدرد اور مخلص انسان تھے۔ ہر ایک سے خوش دلی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ خلافت سے عشق تھا۔ عہدیداران اور نظامِ جماعت کا بہت احترام کرتے تھے۔ کسی سے جھگڑے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ شہادت کے بعد غیر از جماعت دوست بھی اظہار کرتے رہے کہ کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی، نہ ہی کبھی کسی کو شکایت کا موقع دیا۔ بار بار شہادت کی تمنا کیا کرتے تھے۔ شہادت سے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک لڑکا کلہاڑی لے کر تعاقب کر رہا ہے اور اچانک وار کر دیتا ہے تو اس سے آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ شہادت سے دو دن قبل ان کی اہلیہ محترمہ نے خواب میں دیکھا کہ میرے خاوند شہید مرحوم کی شادی ہو رہی ہے۔ پھر اچانک دیکھتی ہیں کہ گھر میں جنازہ پڑا ہوا ہے۔ کہتی ہیں میں بھاگ کر اپنے والدین کے گھر جاتی ہوں جو قریب ہی تھا تو دیکھا کہ ایک جنازہ وہاں بھی پڑا ہوا ہے۔ پھر ان کی آنکھ کھل گئی۔ شہید مرحوم کے والدنے بھی ایک خواب دیکھی تھی۔
مکرم رضی الدین صاحب شہید موصی تھے اور اکثر مسجد میں سیکیورٹی کی ڈیوٹی دیتے تھے۔ ان کے والد کی عمر اسّی سال ہے اور وہ گذشتہ چار سال سے مفلوج بھی ہیں۔ شہید مرحوم اپنی فیملی کے علاوہ اپنے بھائی کی فیملی اور والدین کے بھی واحد کفیل تھے۔ ان کے بھائیوں کو بھی دھمکیاں ملی تھیں جس کی وجہ سے وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔ اُن کے جانے کے بعد پھر اِن کو دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں تھیں۔
پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ محترمہ نصرت جبین صاحبہ اور سات ماہ کی بیٹی عزیزہ عطیۃالنور شامل ہیں۔ ایک بھائی اور تین بہنیں بھی سوگوار چھوڑی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں