مکرم سردار رشید احمد قیصرانی صاحب

حضرت سردار شیربہادر قیصرانی صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍اگست 2010ء میں مکرم اسفند یار منیب صاحب کے قلم سے اردو زبان کے ایک بلند پایہ شاعر محترم رشید قیصرانی صاحب کا تعارف اور آپ کے کلام پر تبصرہ شامل اشاعت ہے۔

رشید احمد قیصرانی صاحب

محترم رشید قیصرانی کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے مشہور بلوچ قبیلے قیصرانی کے سردار گھرانے سے تھا۔ آپ نے شاعری کالج کے زمانہ سے ہی شروع کی۔ آپ نہ صرف اردو غزل میں ملک کے صف اوّل کے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ آپ کا نام اردو ادب کا بھی ایک مقبول نام ہے۔ مشہور نقّاد ڈاکٹر عابد حسین صاحب نے 1955ء میں اردو ادب کی تاریخ لکھتے ہوئے رشید قیصرانی صاحب کو پاکستان کی غزل کی آواز قراردیا ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر اختر ارینوی صاحب نے، ڈاکٹر انور سدید صاحب نے تاریخ ادب اردو میں خاص طور پر ان کا نام مرقوم کیااور ان کی خدماتِ ادب کو سراہا ہے۔ اسی طرح ملک کے دیگر نامور ادیبوں اور شاعروں نے ان کے فن اور شخصیت پر مضامین لکھے ہیں، جن کوخالد اقبال یاسر اور جلیل حیدر لاشاری نے یکجا کر کے ’’رشید قیصرانی فن اور شخصیت‘‘کے نام سے ایک کتاب کی صورت میں شائع کروایا۔
رشید قیصرانی صاحب کے پانچ شعری مجموعے شائع ہوئے: ’فصیل لب‘، ’صدیوں کا سفر تھا‘، ’نین جزیرے‘، ’سجدے‘ اور ’کنار زمین تک‘۔ پھر ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی صورتحال پر آپ کی کتاب Thought of the dayبھی شائع ہوئی جسے بڑی پذیرائی ملی۔ آپ کے اخباری کالم اور مضامین پر مشتمل ایک کتاب ’’یہ کیا ہے، یہ کیوں ہے‘‘ کے نام سے بھی شائع شدہ ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سجاد باقر رضوی صاحب کو آپ کا یہ شعر بہت پسند تھا: ؎

نکلا ہوں لفظ لفظ سے میں ڈوب ڈوب کر
یہ تیرا خط ہے یا کوئی دریا چڑھا ہوا

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 11؍اپریل 1997ء کی اردو کلاس میں قیصرانی صاحب کی ایک نظم پڑھے جانے پر آپ کا اور آپ کے خاندان کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ قیصرانی خاندان کے بزرگ سردار نے حضرت مسیح موعودؑ کی اس وقت بیعت کی جبکہ بہت مشکل تھا خاص طور پر ڈیرہ غازی خان جیسے علاقہ میں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو دماغ اچھے دیے ہیں۔ جتنے بھی بلوچ ہیں وہاں کے بہت ذہین اور قابل لوگ ہیں۔ جب پڑھائی کریں تو پھر اچھا چمکتے ہیں۔ ان کے جس سردار نے حضرت مسیح موعودؑ کو مان لیا تھا وہ بہت بہادر اور بہت مخلص تھے۔ انگریزوں نے جو مختلف خاندانوں کو مقام دئیے ہوئے تھے ان میں قیصرانی سرداروں کا مقام ہمارے خاندان سے آگے تھا۔ قادیان کا خاندان تو پہلے ہی لٹ پٹ چکا تھا اور اس کے ارد گرد کوئی آبادی ایسی نہ تھی جو اس خاندان کو سپورٹ دے۔ سکھ تھے سارے۔ مگر قیصرانی قبیلہ تھا پورے کا پورا اور جب وائسرائے کا دربار لگتا تو ان کو آگے کرسی ملتی تھی اور جو ہمارے آباء و اجداد کے خاندان کونسبتاًپیچھے کرسی ملتی تھی۔ تو غالباً پرنس آف ویلز یا کوئی اَور شہزادے آئے تھے۔ بڑے اہتمام اور شان و شوکت سے ایک دربار بلایا گیا جس میں تمام پنجاب کے جو معزز خاندان تھے جو پنجاب چیفس کہلاتے تھے، ان سب کو دعوت دی گئی اور ان کی کرسیاں حکومت کے لحاظ سے ترتیب سے لگائی گئی تھیں۔ کرسیوں کی قطاریں ان خاندانوں کے انگریزوں کی نظر میں مقام کو بھی ظاہر کرتی تھیں۔ بہت سلیقے سے دربار سجا ہوا تھا اور حضرت مصلح موعودؓ بھی مدعو تھے اور ایسا اہم موقع تھا کہ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ ضرور جائیں۔ قیصرانی سردار کی کرسی آگے تھی اور کچھ پیچھے ہٹ کر حضرت مصلح موعودؓ کی کرسی تھی۔ اب انگریزوں نے مذہب کے لحاظ سے تو کوئی عزت نہیں دینی تھی،ان کو پرواہ بھی کوئی نہیں تھی،لیکن خاندانی مقام کے لحاظ سے انہوں نے ٹھیک کیا۔ رشید قیصرانی صاحب کے تایا حضرت سردار امام بخش قیصرانی صاحب کی نظر پڑگئی کہ حضرت مصلح موعودؓ پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فوراًاپنی کرسی موڑی اور وائسرائے اور شہزادے کی طرف پیٹھ کردی۔ اور حضرت مصلح موعودؓ کی طرف منہ کر لیا۔ سرداروں کا یہ ایک دستور ہے کہ اکٹھے رہتے ہیں اور ان میں سے کوئی معزز آدمی حرکت کرے تو دوسرے نہ کریں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ پھٹ گئے ہیں تو جتنے بھی ڈیرہ غازی خان کے معززین سردار تھے اُن سب نے اپنی کرسیاں پھیرلیں اور حضرت مصلح موعودؓ کی طرف منہ اور پیٹھ اس طرف۔ وائسرائے گھبرا گیا اس نے سمجھا کہ بغاوت ہونے والی ہے کوئی۔ اتنی عجیب حرکت!۔ اس نے فوراً آدمی دوڑایا کہ کیا ہوا ہے۔کوئی ناراضگی ہوئی تو ہمیں بتائیں۔ اس نے کہا کہ ناراضگی تو کوئی نہیں مگر یہ میرا روحانی پیر ہے اور میرے نزدیک یہ زیادہ معزز ہے۔ مَیں اس کی طرف پیٹھ نہیں کر سکتا، تمہاری طرف کر سکتا ہوں۔ تو انہوں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کی کرسی وہاں سے اٹھوائی، اگلی صف میں ساتھ کی تو پھر وہ سارے سیدھے ہوگئے۔ یہ ہے قیصرانی قبیلے کی داستان جو ہمیشہ یاد رہے گی۔ان کی بہادری ان کا اخلاص…۔ یہ (رشید قیصرانی) ایئر فورس میں ہوا کرتے تھے۔ ہمارے کالج کے ربوہ کے پڑھے ہوئے۔ آغاز ہی سے ان کو اردو ادب کا بہت ملکہ اور ذوق تھااور ان کا کلام باقی سب سے ایک الگ حیثیت رکھتا تھا۔ بہت اعلیٰ درجہ کا کلام بچپن سے ہی کہتے تھے۔ اس لیے مَیں ان کا سرسری واقف تھا مگر شروع سے ہی ان کا کلام مجھے بہت پسند تھا۔ اب انہوں نے مجھے اپنی کتاب بھی بھیجی ہے اور ایک اخبار میں بھی ان کا کلام چھپا ہوا دیکھا۔ ایک ان کی نظم ہے پاکستان کے اوپر۔ پاکستان ڈے کی خوشی میں جتنی بھی مَیں نے اس مضمون پر نظمیں دیکھی ہیں میرے نزدیک رشید قیصرانی صاحب کی نظم سب سے اونچی ہے۔ اَور بھی ہوں گی مگر میرے علم میں نہیں۔ مجھے تو ان کی سب سے زیادہ پسند ہے:

تری طلب تری خوشبو ترا نمو بولے
مرے وطن مری رگ رگ میں صرف تو بولے

رشید احمد قیصرانی صاحب

حضورؒ نے 24؍ مارچ 1999ء کی اردو کلاس میں بھی مکرم رشید قیصرانی صاحب اور آپ کے خاندان کاذکر کرتے ہوئے مذکورہ بالا واقعہ دہرایا۔ نیز فرمایا کہ یہ ہمارے ایک بہت ہی مخلص قیصرانی قبیلے کے سردار کے بیٹے ہیں یعنی سردار شیر بہادر خاں صاحب کے۔

حضرت سردار شیربہادر قیصرانی صاحبؓ

ڈیرہ غازی خان کا قیصرانی ایک بہت بااثر اور بڑے رسوخ والا قبیلہ ہے۔ سردار شیر بہادر خان قیصرانی قبیلہ کے سردار تھے جن کو آپ کے بڑے بھائی سردار امام بخش کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی توفیق ملی تھی جو اس قبیلے میں سب سے پہلے احمدی ہوئے تھے۔ یہ وہ خاندان ہے قیصرانی، جو وہاں حضرت اماں جانؓ کے گھر میں یہ لوگ ٹھہرے بھی رہے ہیں اور ان کی خواتین وہیں اماں جانؓ کے پاس بے تکلف بیٹھا کرتی تھیں۔…رشید المنار کے ایڈیٹر بھی ہوا کرتے تھے۔ مباحثوں میں ٹی آئی کالج کی طرف سے نمائندگی کرتے تھے۔بہت اچھی تقریر کیا کرتے تھے اور بہت اچھی نظم کہتے تھے اور نظم پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے شعری مجموعوں کے بڑے رومانٹک نام رکھے ہوئے ہیں اور ہیں بھی رومانٹک ہی۔
ذیل میں محترم رشید قیصرانی صاحب کے کلام سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔ پہلے حمدیہ کلام:

مرے دل میں سوزِ نہاں بھی تو
مرے لب پہ حرف عیاں بھی تو
ہے ازل سے تا بہ ابد بھی تو
ہے کراں سے تا بہ کراں بھی تو
…………………
اک میں کہ ترا ایک اشارہ مری ہستی
اک تو کہ ترا نام مرا آبِ بقا ہے
اک میں کہ فقط لمحۂ موجود کا باسی
اک تو کہ ازل تا بہ ابد چہرہ کشا ہے

نعتیہ کلام

ہم نے بادل کبھی سایہ کبھی دریا لکھا
غم کے صحرا میں تجھے جانے کیا کیا لکھا
تُو تو سب کا ہے، سبھی چاہنے والے تیرے
ہم نے لیکن تجھے اپنا فقط اپنا لکھا

منقبت حضرت مسیح موعود ؑ

وہی تو تھا کہ جو سلطانِ حرف و حکمت تھا
قلم کرشمہ تھا اور حرف معجزے اس کے
وہ عکسِ یار تھا اور آئینہ نما بھی تھا
نرالی شان انوکھے تھے مرتبے اس کے

خلافت احمدیہ

ایک راہگذار قدرتِ اولیٰ نے کھول دی
اس لامکاں سے شہرِ طلب کے مکین تک
اس رہگذر پہ قدرتِ ثانی کے نامہ بر
پہنچے ہیں پا برہنہ کنارِ زمین تک
خلیفہ ٔ وقت سے عقیدت کا اظہار
وہ جن کے دم سے ہیں وابستہ حوصلے دل کے
انہی کو سونپ دیے ہیں معاملے دل کے
دراز ہیں وہ رگِ جاں سے حاصلِ جاں تک
کبھی نہ ٹوٹ سکیں گے وہ سلسلے دل کے

ابتلاؤں کے نام

تپتے ہوئے صحرا میں کبھی صحنِ چمن میں
ڈھونڈا ہے تجھے ہم نے کبھی کوہ و دمن میں
ہر صبح ترے فکر کے ہنگام میں پھوٹی
ہر شام کی آغوش تری یاد سے بھر دی
اس عشق میں ہم موردِ الزام بھی ٹھہرے
دیوانے ترے مرکزِ دشنام بھی ٹھہرے
معتوب ہوئے ہیں کبھی دربارِ شہی سے
مجروح کبھی خلق کی بیداد گری سے
یہ جرم تھا اپنا کہ سرِ عام کہا ہے
تُو سب سے بڑا، سب سے بڑا، سب سے بڑا ہے

غزلیہ شاعری
معروف نقاد ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں: رشید قیصرانی نے کتابی غزل کہنے کی بجائے غزل کی نئی کتاب مرتب کی ہے۔یہ غزل جو غالب کی جدیدیت کے بعد رکی سی نظر آتی تھی اسے اپنے لمس سے لفظوں کی بیاض عطا کی ہے۔ اردو غزل کی نئی زمینیں، نئے تماثیل اور نئے علائم و رموز عطا کیے ہیں۔ اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے۔

ہم خود سے جدا ہو کے تجھے ڈھونڈنے نکلے
بکھرے ہیں اب ایسے کہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں
…………………
ہر شے میں اب تو ایک ہی صورت دکھائی دے
ایسا نصابِ دید میں ردّ و بدل ہوا
…………………
اک ترا نام تھا ابھرا جو فصیلِ لب پر
ورنہ سکتے میں رہی ساری خدائی پہروں
…………………
موجۂ آب پہ قندیل جلائی نہ گئی
تیری آواز کی تصویر بنائی نہ گئی
وہ تو گزرے تھے رشیدؔ آج بھی دریا کی طرح
پیاس کافر تھی کچھ اتنی کہ بجھائی نہ گئی
…………………
کاش کچھ دیر مجھے تم نہ سنبھلنے دیتے
سنگِ مرمر پہ مجھے اور پھسلنے دیتے
اپنی تحریر کا انداز نہ بدلا ہوتا
لفظ کاغذ پہ اچھلتے تھے اچھلنے دیتے
…………………
جھانکتا کون ہے اب دل کے شگافوں میں رشیدؔ
زخم چہرے پہ سجاؤ تو کوئی بات بنے
…………………
جو تری یاد کی خوشبو نے سنوارے لمحے
کر لیے ہم نے غزل بند وہ سارے لمحے
آپ آتے ہیں تو ہوتی ہے عجب وقت کی چال
ایک لمحے میں گزر جاتے ہیں سارے لمحے
…………………
وہ تو جب بولتے ہیں کون و مکاں بولتے ہیں
تم ڈرو ان سے جو اشکوں کی زباں بولتے ہیں
چاہنے والے گزر جاتے ہیں چپ چاپ مگر
کوچۂ یار میں قدموں کے نشاں بولتے ہیں
…………………
کس کی کھوج تھی کیا بتلائیں کیسے ہم مجبور ہوئے
کِرچی کِرچی درد سمیٹا خود بھی چکنا چور ہوئے
…………………
کتنی صدیوں بعد ملی ہو پھر بھی کم کم ملتی ہو
ہم سے پیاسے صحراؤں سے شبنم شبنم ملتی ہو

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں