مکرم سعید احمد طاہر صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3اگست 2011ء میں مکرم عبدالباری قیوم شاہد صاحب نے مکرم سعید احمد طاہر شہید کا مختصر ذکرخیر کرتے ہوئے ایک واقعہ قلمبند کیا ہے۔
جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی سعادت حاصل کرنے کے بعد 31دسمبر 2009ء کو جب میں دارالذکر لاہور پہنچا تو کمزوری اور تھکاوٹ سے جسم شدید درد محسوس کررہا تھا۔ کھانا کھاکر چند منٹ سستانے کے لئے ایک بستر پر دراز ہوا تو جب میری آنکھ کھلی اُس وقت ربوہ جانے والی گاڑی کی روانگی میں صرف نصف گھنٹہ باقی تھا۔ میںنے جلدی سے منہ ہاتھ دھویا اور معاونین سے اپنا بیگ وصول کرکے درخواست کی کہ وہ مجھے ریلوے سٹیشن کے لئے رکشہ لا دیں کیونکہ مجھے ربوہ جانے والی گاڑی میں سوار ہونا ہے۔ میری فکر مندی کو دیکھ کر ایک نوجوان دوست نے میری پریشانی کی وجہ دریافت کی۔ اور پھر کہنے لگے: انکل! میری ڈیوٹی مہمانوں کو ٹرانسپورٹ مہیا کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ میرے پاس اپنی کار موجود ہے۔ میں آپ کو ربوہ کی گاڑی میں سوار کروا دوں گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے نہایت تیزی سے میرا بیگ اٹھایا اور دارالذکر کے گیٹ سے باہر آکر اپنی کار میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میںنہیں جانتا کہ سٹیشن کب پہنچ گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سارے کام فرشتے ہی کر رہے ہیں۔ ایک ایک منٹ قیمتی بھی تھا اور دُوبھر بھی۔ سٹیشن کے باہر ایک باوردی سپاہی نے زیادہ دیر گاڑی پارک کرنے سے روکا۔ یہ اپنی کار تھوڑا مزید آگے لے گئے۔ ایک قُلی کو بلایا اور کہا: بھائی سنو! یہ میرے مہمان ہیں ان کو سرگودھا ایکسپریس پر سوار کروانا ہے کوئی تکلیف نہ ہو۔ وقت بالکل نہیں ہے اور ابھی ان کو ٹکٹ بھی لینا ہے۔ تم یہ 100 کا نوٹ لو۔ ان کو گاڑی میں سوار کروا کے واپس آکر مجھے بتا دو۔ میں تمہیں مزید انعام دے دوں گا اور مجھے اطمینان ہو جائے گا اور اگر گاڑی چھوٹ جائے تو انہیں واپس یہیں لے آنا میں تمہیں مزید ایک 100روپے مزدوری دے دوں گا۔
اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے جدا ہو گئے۔ قُلی نے برق رفتاری سے ہر کام کیا اور نہ جانے کن کن راستوں سے گزرتے ہوئے مجھے سرگودھا ایکسپریس میں سوار کروا دیا۔ جونہی میں نے گاڑی کے اندر قدم رکھا گاڑی چل پڑی اور مَیں اشکبار آنکھوں سے زیر لب اس نوجوان دوست کے لئے دعائیں کرتا ہوا اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔
اس کے بعد میں ایک لمبا عرصہ اس خادم کا نام یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر مجھے اس کا نام یاد نہ آیا۔ 28مئی لاہور کے واقعہ کے بعد شہداء کے ناموں کی فہرست کو بار بار پڑھ کر میں ذہن پر زور دے کر اس کا نام یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر ناکام رہا۔ تاآنکہ راہ حق کے شہیدوں کی تصویریں شائع ہوئیں تو مَیں نے بہت غور سے ان تصاویر کو دیکھا جن میں خدام الاحمدیہ لاہور کے اس عظیم فرزند کی تصویر بھی موجود تھی جس نے میری ساری پریشانی اپنے سر لے کر میرے لئے راحت اور سکھ کا سامان پیدا کیا اور اپنے فرض کو کمال خوبی سے ادا کرکے جو جذبۂ خدمت و فدائیت و اخوّت و ہمدردی حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت کے اندر پیدا فرمایا اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ میر ے ممدوح اور پیارے محسن دوست کا نام نامی سعید احمد طاہر ابن مکرم صوفی منیر احمد صاحب ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں