مکرم سید عبیداللہ شاہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اکتوبر 2002ء میں مکرم سید عبیداللہ شاہ صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے اُن کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ آپ پیدائشی احمدی تھے لیکن مزید تحقیق کرکے خود بیعت کی۔ پاکستان بننے پر جالندھر سے چک جھمرہ آگئے۔ مختلف حیثیتوں سے خدمت کی توفیق پائی۔ قائد، صدر جماعت اور امیر حلقہ بھی رہے۔ 1953ء کے فسادات میں کاروبار تباہ ہوگیا اور ہم سب چند روز ایک دوسرے گاؤں میں رہنے کے بعد ربوہ آگئے۔ جب حضرت مصلح موعودؓ سے حالات عرض کئے تو حضورؓ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ واپس جائیں۔ چنانچہ واپس آگئے۔ چند ہی دن میں وہ معاندین جو قتل کی دھمکیاں دیتے پھرتے تھے، اپنی ضرورتوں سے مجبور ہوکر گھر آکر معافی مانگتے رہے۔
دوبارہ کاروبار شروع کرنے کے لئے سرمایہ نہیں تھا۔ صرف دو صد روپیہ سے لکڑی کا کاروبار شروع کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت ڈالی کہ فیکٹری لگالی جس میں پچیس ملازمین تھے۔ آپ خود سارا دن وہاں دعوت الی اللہ میں مصروف رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت دولت عطا کی۔ بہت سے مستحقین کی ہر پہلو سے مدد کی توفیق پائی۔ لوگ کہتے کہ آپ میں مرزائی ہونے کے علاوہ کوئی عیب نظر نہیں آتا۔ آپ جوانی سے تہجد گزار تھے۔ مقبول دعاؤں کی توفیق پاتے تھے۔ جائیداد کے ایک مقدمہ میں وکیل کے کہنے کے باوجود اپنے بیان میں جھوٹ کی ملاوٹ نہیںکی لیکن اللہ تعالیٰ نے باعزت کامیابی عطا فرمائی۔ 1974ء میں آپ کی فیکٹری جلادی گئی اور گھر لُوٹ لیا۔ بیٹے کو لہولہان کردیا۔ پولیس کے مجبور کرنے پر ہم سب پھر ربوہ آگئے۔ یہاں ایک وفد چک جھمرہ سے آیا اور آپ سے مل کر اُس نے کہا کہ آپ ایسے شریف اور ہمدرد شخص کو واپس لانے کے لئے ہم آپ کا سارا نقصان پورا کردیں گے بشرطیکہ آپ مسلمان ہوجائیں۔ آپ نے کہا کہ بے شک باقی جائیداد بھی لے لو لیکن احمدیت نہیں چھوڑوں گا۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ ہم نے پہلے ہی سوچا تھا کہ جب اتنا کچھ ہو رہا تھا اُس وقت بھی آپ کا ایمان متزلزل نہیں ہوا، اب کیسے ہوگا!۔
یکم فروری 1993ء کو آپ پر فالج کا ایسا حملہ ہوا کہ بیٹھنے سے بھی معذور ہوگئے لیکن کبھی حرف شکایت لب پر نہیں آیا۔ 22؍اپریل 1997ء کو وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں