مکرم شیخ اشرف پرویز صاحب شہید مکرم شیخ مسعود جاوید صاحب شہید اور مکرم شیخ آصف مسعود صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شمارہ 2۔ 2010ء) میں مکرمہ عائشہ احمد صاحبہ نے اپنے شہید تایا، شہید والد اور شہید بھائی کا ذکرخیر کیا ہے جن کی کار پر یکم اپریل 2010ء کی رات فیصل آباد میں اُس وقت اندھادھند فائرنگ کی گئی جب وہ اپنی دکان بند کرکے واپس گھر آرہے تھے۔ مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ میرے والد مکرم شیخ مسعود جاوید صاحب کو 21، تایا مکرم شیخ اشرف پرویز صاحب کو 17 اور بھائی مکرم شیخ آصف مسعود صاحب کو 15گولیاں لگیں۔ میرے والد اور بھائی تو موقع پر شہید ہوگئے جبکہ تایا نے قریباً بیس منٹ کے بعد ہسپتال پہنچ کر جامِ شہادت نوش کیا۔ جب یہ اطلاع جرمنی میں ہمارے گھر میں دی گئی تو مجھے یہی بتایا گیا کہ تینوں زخمی ہیں۔ اُن دنوں ایسٹر کی چھٹیاں تھیں اور بچوں کے ویزے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان جانا ناممکن لگ رہا تھالیکن خداتعالیٰ نے ہر کام آسان کرکے ٹکٹوں کا بندوبست بھی کردیا۔ یہ تکلیف دہ سفر کیسے کٹا …گھر پہنچ کر اپنے چچا کو جس حالت میں دیکھا تووہ خواب یاد آگیا جو مَیں دو ہفتے پہلے دیکھ چکی تھی کہ وہ نڈھال ہیں اور لوگ سہارا دے کر انہیں چلا رہے ہیں۔ پھر حادثے سے چار روز پہلے عجیب واقعہ ہوا کہ تہجد کے وقت ہمارے گھر کے دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ ہم بہت پریشان ہوئے لیکن پھر خیال آیا کہ شاید خداتعالیٰ نماز کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔
میرے دادا مکرم شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم بہت پیارے انسان تھے۔ میری سہیلیوں سے بھی اس شفقت سے پیش آتے کہ وہ کہا کرتیں کہ کاش ہمارے دادا بھی ایسے ہوتے۔ وہ غرباء کا بہت خیال رکھتے اور خاموشی سے کئی گھروں کو خرچ دیتے تھے۔ کئی غریب بچیوں کی شادیاں کروائیں۔ نمازیں اوّل وقت میں باجماعت ادا کرتے۔ حضور کے خطبات شوق سے سنتے اور ہمیں بھی توجہ دلاتے۔ یہی خوبیاں آگے اُن کی اولاد میں آئیں۔ 1974ء کے فسادات میں اُن کی دکان مراد کلاتھ ہاؤس جلادی گئی تو انہوں نے بچوں کو دعائیں کرنے اور ثابت قدم رہنے کی نصیحت کی۔ پھر خدا کا ایسا فضل ہوا کہ ایک کے بدلے کپڑے کی دو دکانیں بن گئیں اور تیسری دکان مراد جیولرز بھی بن گئی۔
ایک بار میرے دادا کو نماز پڑھنے کے جرم میں پکڑ کر پولیس گرفتار کرکے لے جانے لگی تو تایا جلدی سے جاکر دادا کو اُتار کر خود پولیس کی گاڑی میں بیٹھ گئے اور اس طرح دس بارہ دن تک اسیر راہ مولیٰ رہنے کی سعادت پائی۔ اس دوران اذیّت ناک سلوک برداشت کیا۔ شدید گرمیاں تھیں اور نہ ملاقات کروائی جاتی اور نہ ہی گھر کا کھانا پہنچانے کی اجازت تھی۔ زمین پر سارا وقت بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا بلکہ سونا بھی اسی حالت میں پڑتا۔
میرے تایا مکرم شیخ اشرف پرویز صاحب خدمت خلق میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہوتا اور آپ کو پیغام ملتا تو آدھی رات کو بھی فوراً مدد کے لئے چل پڑتے۔ اگر کبھی گھر والے کہتے کہ سارا دن کام کے بعد اب گھر آئے ہیں تو وہ جواب دیتے کہ لوگ اتنے مان کے ساتھ مجھے بلاتے ہیں مَیں اُن کا مان تو نہیں توڑ سکتا۔ آپ نے بارہا دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنا نقصان کروالیا۔ غریبوں میں تقسیم کرنے کے لئے گھر کا ایک کمرہ راشن سے بھرا رہتا تھا۔ دکان پر کام کرنے والے ایک لڑکے کو بیٹا بنالیا۔ اُس کا ہر طرح سے خیال رکھا اور شادی بھی کروائی۔ نماز بہت اہتمام سے ادا کرتے اور باقاعدہ تلاوت قرآن کریم کرتے۔ روزانہ دعاؤں کا ورد بھی کرتے۔
میرے والد مکرم شیخ مسعود جاوید صاحب بھی بہت ہمدرد انسان تھے اور دوسروں کا بہت خیال رکھتے۔ دکان پر قریباً تیس ملازم تھے مگر کبھی کسی کو نہیں ڈانٹا۔ ایک دفعہ کسی لڑکے نے دوسروں کو بہت تنگ کیا تو اُسے نکال دیا۔ پھر خود ہی ادا س ہوگئے اور اُس کے لئے دعائیں کرتے رہے۔ آخر ایک دن وہ واپس آگیا تو خدا کا شکر ادا کیا اور اُسے فوراً رکھ لیا۔ اسی طرح ایک بار میرے بھائی کی کسی ملازم سے بحث ہوگئی تو والد صاحب نے ملازم کو کچھ نہیں کہا لیکن اپنے بیٹے کو گھر بھجوادیا۔ رات کو جب بیٹے نے اس کا شکوہ کیا تو آپ نے سمجھایا کہ تم پر خدا کا فضل ہے اور گھر بیٹھ کر بھی کھا رہے ہو لیکن اگر اُس غریب کو گھر بھیج دیتا تو وہ اپنا گھر کیسے چلاتا۔ پھر سمجھایا کہ پتہ نہیں ہمیں خداتعالیٰ کس کی قسمت کا رزق دے رہا ہے اس لیے کبھی کبھی دوسروں کی بات برداشت کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ کئی لوگ آپ سے غلط بیانی کرکے بھی فائدہ اٹھالیتے۔ ہم کو غصہ آتا لیکن آپ یہی کہتے کہ سب کچھ خدا کا ہی دیا ہوا ہے اگر اُن کو اس طرح کوئی فائدہ ہوتا ہے تو ہمارا کیا جاتا ہے۔
میرے ابا کا امّی کے ساتھ بہت پیار بھرا سلوک تھا اور خاندان میں مثالی جوڑی تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے اور ایک دوسرے کے رشتہ داروں کو بھرپور عزت دیتے۔ آپ غیبت اور جھوٹ کو سخت ناپسند کرتے تھے۔
میرا بھائی آصف بھی ہر وقت اپنے ابّا کے ساتھ رہتا اور اُن کے ساتھ ہی اس دنیا سے بھی رخصت ہوگیا۔ وہ غریبوں کے لئے پریشان رہنے والا بچہ تھا۔ ایک بار اُس نے کسی کو ملازم رکھا اور چار ہزار روپے ایڈوانس دیے۔ لیکن وہ لڑکا پھر کام پر نہیں آیا تو کچھ دن بعد بھائی اُس کے گھر گیا اور وجہ پوچھی۔ اُس نے بتایا کہ اُس کی والدہ بیمار ہے۔ بھائی نے اُس کو اپنی جیب میں موجود رقم،جو چار ہزار روپے تھی، دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو نہ بتانا اور اگر اور بھی کوئی ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔ اُس ملازم نے بعد میں یہ بات دوسرے بھائی کو بتائی۔
میرا بھائی اپنے والدین کے ساتھ بھی لاڈپیار کرتا اور بہن بھائیوں کا بھی خیال رکھتا۔ اگر اُسے احساس ہوتا کہ مَیں اداس ہوں تو اُس وقت تک فون بند نہ کرتا جب تک میرا موڈ ٹھیک نہ ہوجاتا۔ رمضان کے پورے روزے رکھتا اور راتیں عبادت میں گزارتا۔ ہر رشتہ بڑی خوبی سے نبھاتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں