مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 26 جون 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ صدف شیخ صاحبہ کے قلم سے اُن کے سسر مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب شہید کا ذکرخیر بھی شامل اشاعت ہے۔
محترم شیخ صاحب 8؍ جنوری 1944ءکو حضرت شیخ میاں شمس الدین صاحبؓ کے ہاں مڈھ رانجھا ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ حضرت شیخ صاحبؓ نے 1900ء میں قادیان جاکر قبولِ احمدیت کا شرف پایا۔ وہ ایک باثمر داعی الی اللہ تھے۔ اُن کی ہی کاوش کے نتیجے میں مکرم چودھری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ربوہ کے والد محترم بابو محمد بخش صاحب کو بھی قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔حضرت شیخ صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا۔ شہید مرحوم اُن کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔
شہید مرحوم ابھی چودہ برس کے تھے اور میٹرک کے طالب علم تھے جب آپ کے والد محترم کی وفات ہوگئی چنانچہ میٹرک کے بعد آپ مزید تعلیم حاصل کرنے کی بجائے ڈھاکہ جاکر ملازم ہوگئے۔ تین سال کے بعد 1963ء میں آپ واپس لاہور آگئے۔ آپ کا نکاح جلسہ سالانہ ربوہ 1965ء کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مکرمہ عابدہ خانم صاحبہ بنت حضرت خواجہ محمد شریف صاحبؓ سے پڑھایا۔ محترمہ عابدہ خانم صاحبہ بھی بہت نیک اور متّقی خاتون تھیں۔ بیسیوں بچوں نے اُن سے قرآن کریم ناظرہ سیکھا۔ اُن کی تحریک پر ہی محترم شیخ صاحب نے مزید تعلیم حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی اور تین بیٹے عطا کیے۔ اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد، جو 9؍ستمبر 1993ء کو ہوئی، محترم شیخ صاحب اپنے چھوٹے بیٹے کے پاس جرمنی تشریف لے آئے لیکن تین سال بعد واپس پاکستان چلے گئے اور ملازمت اختیار کرلی جو 2004ء تک جاری رہی۔
محترم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب اوائل جوانی سے ہی اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے کے لیے ہرممکن کوشش کرتے تھے۔تہجد کے لیے شب بیداری اور کثرت سے درودشریف کرتے۔ اپنی تنخواہ وصول کرکے سب سے پہلے چندہ ادا کرتے اور پھر رقم گھر میں لاتے۔ صدقہ و خیرات کھلے دل کے ساتھ خوشی سے کرتے۔ جہاں بھی رہے اپنے محلّہ میں کسی ضرورت مند گھرانے میں ہر ماہ ضروری راشن ڈلواتے۔ بہت دعاگو اور کثرت سے نوافل ادا کرنے والے تھے۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔جرمنی میں قیام کے دوران زبان سے زیادہ واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ڈکشنری کی مدد لیتے۔ اپنے قریبی علاقے کے ہر گھر میں آپ نے پیغامِ حق پہنچایا۔ اکثر لوگ احترام سے بات سنتے لیکن بعض شرپسند بدتمیزی بھی کرتے۔ ایک مرتبہ چند معاندین نے گھر میں داخل ہوکر آپ پر حملہ کیا اور چہرے پر تھپڑ مارا۔ آپ کے بیٹے نے اُن کا مقابلہ کیا اور اُنہیں بھاگ جانے پر مجبور کیا۔ اسی طرح دورانِ سفر ایک بار تبلیغ کرنے پر آپ کو ایک شخص نے ویگن میں سے زبردستی باہر پھینک دیا۔
شہید مرحوم نے سانحہ لاہور سے دو سال قبل بیرونی سرگرمیاں ترک کرکے مکمل طور پر رجوع الی اللہ کرلیا تھا۔ باقاعدگی سے رمضان کے روزے رکھتے اور اعتکاف بھی کرتے۔ وقف عارضی تو آپ اکثر کیا کرتے تھے۔ ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرتے۔ احمدیوں کے علاوہ کئی غیرازجماعت بھی آپ کو دعا کے لیے کہتے۔ آپ نے اُن کے نام اپنی ڈائری میں لکھے ہوتے تھے اور باقاعدگی سے اُن کے لیے دعا کرتے۔ جمعہ کے دن خوش رہتے۔ خاص طور پر درودشریف پڑھتے اور نوافل ادا کرتے رہتے۔ 28؍مئی 2010ء کو بھی حسب معمول نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیےوقت سے بہت پہلے تشریف لے گئے۔ ٹانگوں کی تکلیف کی وجہ سے آپ کرسیوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ جب دہشتگردوں کا حملہ شروع ہوا تو آپ بھی اپنی چھڑی کے سہارے تہ خانے کی طرف چلے لیکن اسی دوران گرنیڈ کا نشانہ بن کر شدید زخمی ہوگئے اور جامِ شہادت نوش کیا۔ بوقت شہادت آپ کی عمر 66 سال تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں