مکرم شیخ محمد یونس صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 5 جون 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) میں مکرمہ فائزہ ماہم صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم شیخ محمد یونس صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
مکرم شیخ محمد یونس صاحب کی والدہ محترمہ تمیزہ خانم صاحبہ بنت حضرت چودھری عبدالسمیع صاحبؓ پیدائشی احمدی تھیں لیکن والد محترم شیخ جمیل احمد صاحب احمدی نہیں تھے۔ مکرم شیخ محمد یونس صاحب کی پیدائش امروہہ (بھارت) میں 1947ء میں ہوئی۔ 1950ء میں یہ فیملی قادیان منتقل ہوگئی جہاں ان کے والد محترم نے بیعت کی اور پھر درویشِ قادیان کے طور پر خود کو پیش کردیا۔ انہوں نے 14 سال قادیان میں گزارے لیکن 1955ء میں اپنے بیوی بچوں کو ربوہ بھجوادیا۔
مکرم شیخ محمد یونس صاحب نے تعلیم مکمل کرکے صدرانجمن احمدیہ میں ملازمت اختیار کی۔ 1976ء میں آپ کی شادی مکرمہ نرگس سعید صاحبہ سے ہوئی۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ گھر میں بیوی بچوں سے مثالی سلوک تھا۔ اہلیہ کی بیماری کی صورت میں گھر کا سارا کام کردیتے اور شہادت سے چند ماہ قبل سے بچوں کو کثرت سے والدہ سے حسن سلوک کی تاکید کرتے۔بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھا اور عمدہ تربیت کی۔ جب بھی کوئی کہانی سناتے تو سچی سناتے۔
بہت دعاگو اور تہجدگزار تھے۔ تہجد میں گریہ و زاری سے دعائیں کرتے۔ نماز باجماعت کے اس قدر عادی تھے کہ ایک مسجد میں جماعت ہوچکی ہوتی تو دوسری مسجد میں چلے جاتے۔ہمہ وقت ہر ایک کی مدد پر آمادہ رہتے اور خود تکلیف اٹھاکر دوسروں کی تکلیف دُور کرتے۔ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کی خدمت کرنے کا شوق تھا۔ متوکّل بہت تھے۔کہا کرتے تھے کہ جو کچھ میرے پاس ہوتا ہے وہ مَیں اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا ہوں اور جب بھی مجھے ضرورت ہوتی ہے تو خداتعالیٰ خود انتظام کردیتا ہے۔ یہ بھی کہا کرتے کہ اگر اپنی نیت کسی کے لیے بُری نہ رکھو تو خداتعالیٰ بھی تمہارا بُرا نہیں کرے گا۔
آپ اپنے والدین کے انتہائی فرمانبردار اور خدمت کرنے والے تھے۔ ساس سسر کو بھی والدین کی جگہ دیکھتے۔ کھانے کا وقت ہوتا تو پہلے بزرگوں کو دیتے، پھر بچوں کو اور آخر میں خود لیتے۔خاندان میں کسی کے ساتھ ناراضگی ہوتی تو صلح میں ہمیشہ پہل کرتے۔غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی معافی مانگتے۔
شہید مرحوم نے ساری عمر خدمت دین میں گزاری۔ دفاتر میں خدمت کے علاوہ دعوت الی اللہ کا جنون تھا۔ اٹھارہ سال تک ربوہ میں اپنے محلّے کے سیکرٹری تبلیغ رہے۔آپ کی اہلیہ کو لجنہ کی طرف سے ایک گاؤں الاٹ ہوا تھا۔ شہید مرحوم نے اپنی اہلیہ کی بھرپور مدد کی اور دونوں سات سال تک متواتر اُس گاؤں میں جاکر تعلیم القرآن کلاسز لگاتے رہے۔ بعدازاں مخالفت کی وجہ سے مرکز کے حکم پر یہ سلسلہ ختم کرنا پڑا۔ دیگر علاقوں میں بھی میڈیکل کیمپس اور تبلیغی دورہ جات کے لیے جاتے اور شدید گرمی میں دل کے مریض ہونے کے باوجود میلوں پیدل سفر کرکے تبلیغ کرتے۔ خداتعالیٰ نے بہت سے پھل آپ کو عطا فرمائے چنانچہ 1997ء میں آل ربوہ بہترین داعی الی اللہ کی شیلڈ آپ کو حضرت مرزا مسرور احمد صاحب امیرمقامی نے عطا فرمائی۔اپنے محلّے میں جماعت کے کئی شعبوں کے سیکرٹری ر ہے اور زعیم انصاراللہ کے طور پر بھی خدمت کی۔
2007ء میں ریٹائرمنٹ لی اور پھر لاہور شفٹ ہوگئے۔ یہاں بھی خدمت دین کے لیے فعال کردار ادا کیا۔ غالباً 2009ء میں مجلس انصاراللہ پاکستان کے مقابلہ مقالہ نویسی بعنوان ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘ میں حصہ لیا اور سوم آئے۔2010ء میں آپ نے مجلس کے لیے ’’تقویٰ‘‘ کے موضوع پر مقالہ تحریر کرنا شروع کیا۔ آپ کی شدید محنت کو دیکھتے ہوئے بعض دوست کہتے کہ اس کے لیے چھ ماہ دیے گئے ہیں اس لیے جلدی نہ کریں۔ لیکن آپ جواب دیتے کہ خداتعالیٰ کا جو کام بھی وقت سے پہلے ختم ہوجائے وہ اچھا ہے۔ 25؍مئی 2010ء کو آپ نے مقالہ مکمل کرلیا۔ اس کا مضمون پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ آپ نے تقویٰ کے لفظ کو ہر زاویے سے اپنے اوپر طاری کرکے پھر یہ مقالہ لکھا ہے۔ بہرحال مضمون کی تکمیل کے دو روز بعد آپ نے جام شہادت نوش کیا۔
ہمیشہ کی طرح آپ قبل از دوپہر گیارہ بجے مسجدالنور ماڈل ٹاؤن میں جاکر پہلی صف میں بیٹھ گئے اور نوافل ادا کرتے رہے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ شروع ہوا تو ایک دہشتگرد نے کھڑکی سے پہلی تین صفوں کو سب سے پہلے نشانہ بنایا اور آپ اُس وقت سنّتیں ادا کررہے تھے کہ دہشتگرد کی گولی سے زخمی ہوکر گرگئے اور وہیں کچھ دیر بعد جام شہادت نوش کیا۔ حملے کے دوران خدام نے مسجد کے باہر موجود پولیس سے درخواست کی کہ اندر جائیں لیکن پولیس والوں نے نہ تو خود کوئی کارروائی کی اور نہ ہی خدام کی درخواست پر انہیں اپنا اسلحہ استعمال کے لیے دیا۔غرض پون گھنٹے بعد جب دہشتگردوں کو نہتے خدام نے قابو کرلیا تو پھر آپ کی شہادت کا علم ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں