مکرم صوفی غلام رسول صاحب

آپ کا نام تو غلام رسول تھا لیکن طبیعت کی سادگی اور مذہبی لگاؤ کی وجہ سے ’’صوفی‘‘ بھی نام کا حصہ بن گیا۔ آپ کا آبائی وطن گورداسپور تھا جہاں ایک معمولی سا زرعی رقبہ تھا جو دریابرد ہوگیا تو اس کے عوض ایک چھوٹا سا زرعی رقبہ ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں میں مل گیا جس پر آپ نے محنت شروع کردی۔ اسی گاؤں میں محترم کیپٹن ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب بھی رہائش پذیر تھے جو ایک پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ آپ دونوں کی مذہبی گفتگو ہوتی رہتی تھی اور بعض اوقات اس طرح بھی ہوتا کہ مکرم صوفی صاحب اپنے کھیتوں میں ہل چلا رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحب بھی ساتھ ساتھ چلتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات سنا رہے ہیں۔ آخر 1935ء میں مکرم صوفی صاحب نے قبول احمدیت کی سعادت پالی۔
مکرم صوفی غلام رسول صاحب محض پرائمری پاس تھے لیکن احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ مربیان کی طرح دعوت الی اللہ کے جہاد میں مصروف ہوگئے۔ اور آپ کو تقریباً پچاس افراد کو آغوش احمدیت میں لانے کی توفیق ملی۔
قبول احمدیت سے پہلے آپ کی دوشادیاں ہوچکی تھیں جن سے نو بچے (4 لڑکے 5 لڑکیاں) چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ قبول احمدیت کے بعد آپکے رشتہ داروں کی طرف سے بھی مشکلات پیدا کی گئیں لیکن آپ نے صبر اور دعاؤں سے یہ ابتلاء کا وقت گزارا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹے سے نوازا جو اب اپنے علاقے میں طب کی پریکٹس کرتے ہیں۔ تین بیٹیاں بھی عطا ہوئیں۔ … مکرم صوفی صاحب احمدیوں اور غیر از جماعت میں یکساں مقبول تھے۔ بڑے دعاگو بزرگ تھے۔ تہجد باقاعدگی سے ادا کرتے۔ نماز فجر کے بعد بچوں اور بڑوں کو قرآن کریم پڑھاتے۔ چھ سال مقامی جماعت کے صدر بھی رہے۔ سادگی اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت سے صحت آخر تک اچھی رہی۔ ماہ رمضان 1998ء میں 95 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کا مختصر ذکر خیر مکرم انور ندیم علوی صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍ فروری 1998ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں