مکرم عامر لطیف پراچہ صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 26 جون 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم عامر لطیف پراچہ صاحب شہید ابن مکرم عبداللطیف پراچہ صاحب کا ذکرخیر ان کی خالہ زاد مکرمہ لبنیٰ وسیم صاحبہ کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
شہید مرحوم کی ایک بہن اور دو بڑے بھائی ہیں۔ پھر ایک بھائی پیدا ہوا جس کا نام عامر تھا لیکن وہ جلد ہی وفات پاگیا چنانچہ آپ کی پیدائش پر آپ کا نام عامر رکھا گیا۔ بوقت شہادت آپ کی عمر قریباً 35 سال تھی۔
شہید مرحوم نے سرگودھا سے بی اے کیااور پھر لاہور سے ایم بی اے کرکے ڈریس ڈیزائننگ کاکاروبار شروع کیا۔
شہید مرحوم نماز کے پابند، تہجدگزار اور قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے تھے۔ غرباءکی مدد کرتے اور ضرورت پڑنے پر اُن کے علاج کا انتظام بھی کرتے۔ آپ کے دفتر کے راستے میں ایک فقیر بیٹھتا تھا اور آپ باقاعدگی سے اُس کے لیے ناشتہ لے کر جاتے تھے۔ بہت مہمان نواز تھے اور بچپن میں بھی جب ہم لوگ چھٹیاں گزارنے ان کے ہاں جاتے تو واپسی کا پروگرام بننے پر یہ ہمارا سامان چھپادیتے کہ پہلے اَور رہنے کا وعدہ کرو پھر دوں گا۔
جب دہشتگردوں نے لاہور میں مسجد پر حملہ کیا تو آپ نے اپنے بھائی کو فون کرکے اس بارے میں بتایا۔ پھر دوبارہ فون کرکے بتایا کہ میرے آگے بھی شہید ہیں اور پیچھے بھی شہید ہیں۔ اسی اثنا میں آپ کا فون بند ہوگیا۔ پھر دہشتگردوں کے فرار ہوجانے کے بعد آپ کی تلاش شروع ہوئی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہورہی تھی۔تمام ہسپتالوں میں بھی دیکھ لیا لیکن آپ نہیں ملے۔ آخر سروسز ہسپتال میں آپ اس حالت میں ملے کہ پہچاننا بھی مشکل تھا۔ ان کا بچپن میں دل کا آپریشن ہوا تھا جس کے نشان سے شناخت ہوئی۔ اُس وقت صرف ہلکی سانس چل رہی تھی۔ ڈاکٹروں کو کوئی امید نہیں تھی تاہم آپریشن کا فیصلہ کیا لیکن آپریشن تھیٹر پہنچنے سے پہلے ہی آپ کی شہادت ہوگئی۔
مکرم عامر صاحب شہید کی والدہ کینسر کی مریض تھیں اور تین چار سالوں سے شہید مرحوم ہی اُن کا خیال رکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر بڑے تحمّل سے سنی اور بہت صبر کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح شہید مرحوم کے ایک بھائی جو انگلینڈ میں مقیم تھے انہیں مستقل طور پر پاکستان آنا پڑا تاکہ وہ اپنے شہید بھائی کے کاروبار کو سنبھال سکیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں