مکرم عبدالرزاق بٹ صاحب مربی سلسلہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ11؍اکتوبر 2012ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق مکرم عبدالرزاق بٹ صاحب مربی سلسلہ 6؍اکتوبر 2012ء کو بعمر 65سال کسی غلط دوائی کے استعمال کے نتیجہ میں حرکت قلب بند ہوجانے سے وفات پاگئے۔ آپ موصی تھے۔

مکرم عبدالرزاق بٹ صاحب کے آباؤ اجداد کشمیر سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ آپ 4؍اپریل 1947ء کو عالم گڑھ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ مڈل کرنے کے بعد ربوہ آ گئے اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا، 1971ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کر کے اسی سال میں مولوی فاضل اور میٹرک کے امتحانات پاس کئے۔ چند سال پاکستان کے مختلف علاقوں میں بطور مربی خدمات سرانجام دیں اور پھر 1975ء تا 1989ء غانا میں خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران 1979ء سے 1989 تک پرنسپل احمدیہ مشنری ٹریننگ کالج رہے۔ 1989ء میں یہ پاکستان آ گئے اور مختلف جگہوں پر مربی رہے۔ پھر اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے تحت تربیتِ نَومبائعین میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اصلاحی کمیٹی کے بڑے کامیاب ممبر رہے۔ اِن کا سمجھانے کا انداز بڑا خوبصورت تھا۔ 2002ء سے تا وقت وفات نظارت اصلاح و ارشاد (نَومبائعین) اور اصلاحی کمیٹی میں خدمات بجا لاتے رہے۔
مکرم عبدالرزاق صاحب اعلیٰ صفات کے مالک، بڑے خوش مزاج، ملنسار، ہنس مکھ، مہمان نواز، غریبوں کے ہمدرد، ہر دلعزیز اور پسندیدہ شخصیت تھے۔ خلافت احمدیہ کے ساتھ والہانہ محبت اور عشق کا تعلق تھا۔ خاص طور پر غانا میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کو بہت یاد کرتے تھے۔ مرحوم کی طبیعت میں بہت خودداری، قناعت اور کفایت شعاری پائی جاتی تھی۔ ہر حال میں خداتعالیٰ کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ بہت محبت اور شفقت کرنے والے اور ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک روا رکھتے تھے۔ مسجد میں جاکر پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کرتے، تہجدگزار اور بہت دعاگو تھے۔
مرحوم کی شادی 14؍دسمبر 1973ء کو محترم مولانا محمد منور صاحب مرحوم مربی سلسلہ کی اکلوتی بیٹی محترمہ امۃالنور طاہرہ صاحبہ سے ہوئی۔ آپ کی اولاد میں 3بیٹے اور 5بیٹیاں شامل ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 12؍اکتوبر 2012ء کے خطبہ جمعہ میں مرحوم کا ذکر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

حضورانور نے فرمایا کہ مکرم عبدالرزاق بٹ صاحب کے والد غلام محمد کشمیری گجرات کے رہنے والے تھے اور بچپن سے ہی نماز کے بڑے عادی تھے اور اس وجہ سے اپنے علاقہ میں مولوی کہلاتے تھے۔ 1930ء میں انہوں نے بیعت کی تو ان کی اہلیہ ان کو چھوڑ کر چلی گئیں۔ اُس وقت اُن کی ایک غیر احمدی سہیلی نے اُن سے پوچھا کہ کیا اُس نے احمدی ہوکر نمازیں پڑھنی چھوڑ دی ہیں؟ تو ان کی بیوی نے (یعنی رزاق بٹ صاحب کی والدہ نے) اُسے کہا کہ نہیں، نمازیں تو پہلے سے زیادہ پڑھنے لگ گئے ہیں۔ تو اس سہیلی نے کہا کہ پھر وہ کافر کس طرح ہوگیا۔ تو بہرحال پھر وہ واپس آگئیں، نیک فطرت تھیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ عبدالرزاق صاحب کا کام تو فیلڈ میں مَیں نے دیکھا ہے۔ گھانا میں مَیں اُن کے ساتھ رہا ہوں۔ جس بے نفسی سے انہوں نے کام کیا ہے بہت کم مبلغین اس طرح کام کرتے ہیں۔ ان کا بیوی بچوں سے بڑا دوستانہ تعلق تھا۔ ہر جمعہ کو سب بیٹیوں کو دعوت پر بلایا کرتے تھے اور پھر سب کے ساتھ بیٹھ کے ٹی وی پر جمعہ کا خطبہ سنتے تھے۔ اپنی والدہ کی انہوں نے بڑی خدمت کی ہے۔ اپنے کامیاب وقف کا کریڈٹ بھی ہمیشہ اپنی والدہ کو دیتے تھے۔ ہمیشہ اپنے بچوں کو نمازوں اور دعاؤں کی تلقین کرتے رہتے۔ جو نمازیں پڑھنے والے بچے تھے، اُن سے زیادہ پیار اور محبت کا سلوک اور خوشی کا اظہار کرتے۔ ان کی پانچ چھ بچیاں تھیں۔ جب ان بچیوں کے رشتے آئے تو کوئی پوچھتا کہ کون لوگ ہیں، تو ان کو ہمیشہ انہوں نے یہی جواب دیا ہے کہ لڑکا نمازیں پڑھتا ہے اور چندے دیتا ہے تو اَور کیاچاہئے اور اگر میری بچی کے نصیب ہیں تو خالی گھر بھی بھر دے گی اور اگر نصیب میں نہ ہوا تو پھر بہت ساری لڑکیاں ایسی ہیں جو بھرے ہوئے گھر بھی خالی کر دیتی ہیں۔

حضورانور نے فرمایا کہ ان کو خلافت سے بڑی گہری محبت تھی۔ ان کے بیٹے کو کسی وجہ سے تعزیر ہو گئی تو جب تک اُس کی معافی نہیں ہوئی اُس سے بات نہیں کی اور کہتے تھے کہ جس سے خلیفۂ وقت ناراض ہے تو مَیں اُسے کس طرح گوارا کر لوں۔ یہاں بھی 2009ء میں آئے ہیں تو ان کے بیٹے کو سزا تھی لیکن مجھ سے کبھی اشارۃً بھی بات نہیں کی کہ اُس کو معاف کردیں یا کیا صحیح ہے یا غلط ہے۔ بس یہی کہا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ اُس کو عقل دے۔ ہمیشہ نظام جماعت اور خلافت کے پابند رہے اور بچوں کو اسی کی تلقین کرتے رہے۔ بیماری کی حالت میں بھی عموماً چھٹی نہیں لیا کرتے تھے۔ اگر کوئی چھٹی کا کہتا تو کہتے جب دفتر جاؤں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا۔ اگر بچے کبھی مطالبہ کرتے کہ چھٹیاں ہیں، سیر پر لے جائیں تو کہتے تھے میری تو ساری زندگی جماعت کے لئے وقف ہے۔ اور یہ فقرہ یقینا اُن کا سطحی فقرہ نہیں تھا۔ انہوں نے ہر لمحہ جماعت کی خدمت کے لئے وقف کیا ہوا تھا اور اس کو انہوں نے کر کے بھی دکھایا۔
افریقہ میں مَیں ان کے ساتھ رہا ہوں۔ اُس وقت بڑے تنگ حالات ہوتے تھے۔ لیکن بڑی خوشی سے انہوں نے وہاں اپنے دن گزارے ہیں۔ بیمار بہت زیادہ ہوتے رہے۔ ملیریا ہو جاتا تھا۔ ہسپتالوں میں داخل ہوتے رہے، لیکن جب بھی ٹھیک ہوتے فوراً اپنا کام شروع کر دیتے اور وہاں بھی محبت اور پیار کی وجہ سے لوگ ان کے بہت قائل تھے۔ میں جب وہاں گیا ہوں تو یہ پہلے سے وہاں مشنری تھے۔ انہوں نے بہت کچھ وہاں کے حالات کے بارہ میں اور بہت ساری چیزوں کے بارے میں مجھے بتایا، سمجھایا۔ اس طرح میری کافی رہنمائی کرتے رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں