مکرم عبداللہ امانت صاحب (لالہ جی)

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 16 اکتوبر 2020ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مزار مبارک پر دعا کے لیے آنے والوں میں سے اکثر نے کسی بینچ پر یا کیبن میں ڈیوٹی پر بیٹھے ایک سادہ مزاج، مسکین طبع، عمررسیدہ اور دعاگو شخص کو دیکھا ہوگا جنہیں سب لالہ جی کہتے تھے۔ یہ مکرم عبداللہ امانت صاحب تھے جو قریباً اڑھائی ماہ دل کے عارضے میں مبتلا رہنے کے بعد 19؍دسمبر 2011ء کی صبح 81سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت مرحوم کی نماز جنازہ مسجد فضل لندن میں پڑھائی اور بعدازاں بروک ووڈ احمدیہ قبرستان ووکنگ میں تدفین عمل میں آئی۔
رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے مئی جون 2012ء میں مرحوم کا ذکرخیر اُن کے برادر خورد مکرم مجید احمد صاحب سیالکوٹی مربی سلسلہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
لالہ جی کو مزار مبارک پر قریباً پونے نو سال تک خدمت کی توفیق ملی اور حضور انور ایدہ اللہ کے ذاتی وظیفے سے فیضیاب ہوتے رہے۔ اس خدمت کا آغاز اُس وقت ہوا جب آپ حضور انور ایدہ اللہ کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا کرتے ہو؟ عرض کیا کہ اَن پڑھ ہوں اور فارغ ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ فارغ تو نہیں رہنا چاہیے، اسلام آباد میں حضورؒ کے مزار پر ڈیوٹی کے لیے چلے جاؤ۔ چنانچہ آپ اسلام آباد آکر ایک کمرے میں رہائش پذیر ہوئے اور مزار مبارک پر اپنی ڈیوٹی شروع کردی۔ مزار مبارک پر اپنی ڈیوٹی کی ادائیگی کے علاوہ نماز باجماعت میں حاضری آپ کی روح کی غذا تھی۔
لالہ جی کو خلافت سے بہت عقیدت اور لگاؤ تھا کیونکہ آپ نے اپنی ذات میں خلفاء کی دعاؤں کی تاثیر اور قبولیت کے بے شمار نشانات مشاہدہ کیے تھے۔ تین چار بچوں کے فوت ہوجانے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی دوا اور دعا سے خداتعالیٰ نے فضل فرمایا تھا اور پھر آپ کی اولاد بچنا شروع ہوئی تھی۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی جو خدا کے فضل سے حیات ہیں اور صاحبِ اولاد ہیں۔
1985ء میں جب لالہ جی کے والد محترم چودھری محمد عبداللہ صاحب کی وفات ہوئی تو غیراحمدی رشتہ دار وں نے عملاً زمین پر قبضہ کرکے کہا کہ تم تو مرزائی ہو۔ ان حالات میں آپ مقروض ہوگئے اور مجبوراً آپ کو پاکستان سے باہر آنا پڑا۔ لندن پہنچ کر جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے سارے حالات عرض کیے تو حضورؒ نے تسلّی دی اور خاص دعا بھی کی۔ چنانچہ معجزانہ طور پر آپ کو کہیں جائے بغیر، انٹرویو دیئے بغیر اور کسی وکیل کی مدد کے بغیر ہی گھر بیٹھے بیٹھے ہوم آفس کا خط مل گیا جس میں چار سال کے ویزے کی نوید تھی۔ پھر چند ہی مہینوں میں سارے قرضے بھی اتر گئے۔ بچے بھی باہر آگئے اور پھر آپ نے اپنے باقی بہن بھائیوں کی مدد کی توفیق بھی پائی۔
لالہ جی بہت محنتی تھے۔ پاکستان میں اپنی زمینوں پر خود زمیندارہ کرتے رہے۔ دس سال تک پاکستان ریلوے میں ملازمت بھی کی۔ ہر جگہ شرافت، دیانت اور امانت کا ثبوت دیا۔ کبھی کسی کو برا بھلا نہیں کہا۔ اسی لیے آپ کی وفات پر بہت سے غیراحمدی بھی تعزیت کے لیے آپ کے گھر آئے۔
1953ء میں احمدیوں کے خلاف جب تحریک چلی تو فسادیوں نے آپ کے گھر پر بھی حملے کا ارادہ کیا۔ اُن خوفناک حالات میں آپ نے دیگر احمدیوں کے ساتھ مل کر نہایت بہادری سے ہر قسم کی مخالفت کا مقابلہ کیا۔ جلد ہی اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ آپ پر حملے سے قبل ہی دشمنوں میں باہم ایسی پھوٹ پڑگئی کہ وہ آپس میں ہی دست و گریبان ہوگئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو اُن کے شر سے معجزانہ طور پر محفوظ رکھا۔
لالہ جی کو بزرگوں سے بھی بہت عقیدت تھی۔ آپ کے والد محترم اپنے علاقے کے کئی صحابہ کو اپنے گھر پر مدعو کرتے اور ٹھہراتے تو اُن بزرگوں کی خدمت کی سعادت اکثر لالہ جی کو ہی ملتی۔ اسی طرح بعض بزرگوں کے گھروں میں دیہات کی سوغات گُڑ وغیرہ بھی دینے خود لالہ جی جایا کرتے اور ان بزرگوں کی صحبت سے فیض بھی حاصل کرتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں