مکرم قریشی محمد اعظم طاہر صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9 جون 2010ء میں مکرم حکیم محمد افضل فاروق صاحب نے اپنے شہید بیٹے مکرم قریشی محمد اعظم طاہر صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم قریشی محمد اعظم طاہر صاحب کو 26 ستمبر 2009ء کو دو ظالموں نے پستول سے فائر کرکے شہید کردیا تھا۔ اس اندوہناک واقعہ سے کچھ دیر پہلے ہی شہید مرحوم کے بھائی مکرم محمد انور قمر صاحب کی بیٹی کا رخصتانہ عمل میں آیا تھا۔ بارات واپس خیریت سے روانہ ہوئی تو مکرم محمد اعظم طاہر صاحب اپنی بیٹی اور ان کے دو بچوں کو موٹر سائیکل پر سوار کرکے اپنے گھر روانہ ہوئے۔ جس سڑک پر وہ جارہے تھے اس کا کچھ حصہ سنسان تھا۔ وہاں پہنچے ہی تھے کہ اچانک دو جوان مع پستول نمودار ہوئے۔ شہید مرحوم نے موٹر سائیکل کی اگلی لائٹ سے ان کو دیکھ کر موٹرسائیکل کو واپس موڑا تو ایک بچہ گر پڑا۔ اس بچے کو اٹھایا ہی تھا کہ وہ دونوں بھاگ کر ان کے پاس پہنچ گئے اور آتے ہی کنپٹی پر پستول رکھ کر فائر کردیا۔ آپ کی بیٹی نے شور مچایا مگر سنسان جگہ ہونے سے کوئی مدد کونہ آیا۔ پھر اُس نے موبائل کے ذریعہ شہید مرحوم کے بھائیوں کو اطلاع دی۔ وہ وہاں پہنچے تو شہید مرحوم خون میں لت پت سڑک پر پڑے تھے اور کوئی سواری نہ تھی جو فوراً ہسپتال پہنچاتی۔ آخرکار سوئی گیس والی ویگن آئی جس کے ذریعہ ہسپتال لے جایا گیا۔ مگر کافی دیر ہونے اور زیادہ خون نکلنے سے اسی جگہ جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم قریشی محمد اعظم طاہر صاحب کی شہادت کا ذکر خطبہ جمعہ میں کرتے ہوئے نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔
مکرم محمد اعظم طاہر صاحب خدمت خلق میں ہمیشہ آگے رہا کرتے۔ بہادر اور شریف النفس تھے۔ باجماعت نمازیں ادا کرنے والے، خلافت سے محبت رکھنے والے اور خدمت دین کرنے والے تھے۔ اپنی جماعت میں عرصہ سے سیکرٹری مال کے طور پر کام کررہے تھے اور بڑے شوق اور محنت سے یہ خدمت سرانجام دیا کرتے تھے۔
مرحوم روزانہ دس میل دُور سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی ادا کرنے جاتے اور ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی مریضوں کوادویات دیتے۔ شہر میں بھی ان کے کافی مریض تھے جن کے علاج معالجہ میں رات کے دس تک بج جاتے۔ ہر مریض کے لئے ہر دلعزیز تھے۔ ہسپتال میں اکثر غریب اور مفلس بیمار آتے۔ بعض ایسے مریض بھی آتے جن کے پاس سرکاری پرچی کے پیسے نہ ہوتے تو اپنی جیب سے ادا کرتے اور دوائیں دیتے۔ خالی ہاتھ واپس کسی کو نہ بھیجتے۔ اس لئے ہر غریب اور بے کس کی دعائیں لیتے۔ پندرہ سولہ سال سے جس ہسپتال میں ڈیوٹی اد اکررہے تھے اگر کسی وقت تبادلہ ہوتا تو اس علاقہ کے لوگ افسران کے پاس جاکر تبادلہ رکوا دیتے تھے۔ یہ سب مرحوم کے اخلاق، پیار محبت اور خلوص کا نتیجہ تھا۔ چنانچہ ان کی شہادت کا جب اس علاقہ کے لوگوں کو علم ہوا تو وہ دھاڑیں مارکر روتے ہوئے افسوس کے لئے گھر آئے اور شہید مرحوم کا چہرہ دیکھ کر زاروقطار روتے اور کہتے کہ اب ہمیں اس جیسا ہمدرد ڈاکٹر کیسے ملے گا، جو غریبوں کا خیرخواہ تھا۔ شہر کے معززین اور عام شہریوں نے بھی اس واقعہ کا سن کر بہت افسوس کیا اور کہا تھا کہ اس شہر اوچ شریف اور اس کے اردگرد علاقوں میں ایسا ہمدرد ڈاکٹر شاید ہی مل سکے۔
چونکہ طبّ ہماری جدّی پیشہ بھی ہے چنانچہ مرحوم نے میٹرک پاس کرکے میرے مشورہ پر طبیہ کالج ربوہ میں داخلہ لے لیا تھا۔ ربوہ کالج بوجوہ بند ہوگیا تو مرحوم نے بہاولپور کے طبیہ کالج سے بقیہ تعلیم مکمل کی اور چارسالہ کورس کی تکمیل کی۔ کچھ عرصہ ٹاؤن کمیٹی اوچ شریف کے یونانی دواخانہ میں بحیثیت طبیب کام کرتے رہے۔ لیکن ٹاؤن کمیٹی نے یونانی شفاخانہ بند کردیا تو آپ نے میڈیکل ٹیکنیشن بننے کے لئے داخلہ لے لیا اور دو سالہ کورس پاس کرکے مبارک پور کے سرکاری ہسپتال میں ملازمت کرلی۔ جلد ہی ایک تجربہ کار حکیم اور ڈاکٹر کے طور پر مشہور ہوگئے۔ بوقت شہادت سرکاری ہسپتال رتڑ لعل میں کام کررہے تھے۔
مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑے ہیں۔ نیز پانچ بھائی و پانچ ہمشیرگان بھی پسماندگان میں شامل ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں