مکرم ماسٹر محمد اسلم ناصر صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 9؍ جولائی 2021ء تا 17؍ جولائی 2021ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍دسمبر 2013ء میں شائع ہونے والے مکرم عزیز احمد طاہر صاحب کے ایک مختصر مضمون میں مکرم ماسٹر محمد اسلم ناصر صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ خاکسار 1999ء کے اواخر میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 35 سال کی ملازمت کے بعد ریٹائر ہوکر محلہ ناصر آباد شرقی ربوہ میں پہلے سے تعمیر شدہ مکان میں رہائش کی غرض سے آگیا تو مقامی مسجد میں جن دوستوں سے ملاقات ہوئی ان میں ایک ریٹائرڈ ہیڈماسٹر مکرم محمد اسلم ناصر صاحب بھی تھے۔ آپ پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر بطور ہیڈ ماسٹر آپ کی تعیناتی ربوہ سے باہر ہوئی۔ آپ ان واقعات کا ذکر کرتے کہ احمدیت کی مخالفت میں بعض اساتذہ نے کس طرح ان کو پریشان کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر آپ کے خلاف سازش کرنے والوں کو ناکام و نامراد کیا اور آپ نے باعزت طور پر مدّتِ ملازمت پوری کی۔
مکرم محمد اسلم ناصر صاحب کئی عوارض میں مبتلا تھے۔ ایک بیماری کا آپ خاص طور پر ذکر کرتے تھے۔ آپ کی گردن پر اعصابی تکلیف کا شدید حملہ ہوا تھا۔ غالباً اس کا سبب بائیں کان کا آپریشن تھا جس کے نتیجے میں آپ کی قوت سماعت بھی کسی حد تک متاثر ہوئی۔ پاکستان کے چوٹی کے ڈاکٹروں سے علاج کروانے کے باوجود جب گردن کی اعصابی تکلیف دُور نہ ہوئی اور نااُمیدی کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ تو ایک روز آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بیماری کا ذکر کیا۔ حضورؒ کے استفسار پر علاج کی مکمل تفصیل بتائی۔ حضور انورؒ نے اسی وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کروائی اور دعا کے بعد تسلی دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے گا۔ حضور انورؒ نے آپ کی گردن پر اپنا ہاتھ بھی پھیرا اور دعائیں دیں۔
آپ نے ہمیں بتایا کہ اس روز کے بعد بیماری کی شدت کم ہونا شروع ہوگئی اور چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکمل شفا عطا فرمادی۔ آپ اکثر کہتے کہ مجھے شفا حضور انور کی دعا اور برکت سے حاصل ہوئی ہے ورنہ ڈاکٹروں نے تو جواب دے دیا تھا۔
مجھے مکرم محمد اسلم ناصر صاحب کو پڑھانے کی توفیق بھی ملی تھی۔ چنانچہ آپ جب بھی مجھ سے مخاطب ہوتے تو سر جی کہتے۔ گویا چھتیس سال گزرنے کے بعد بھی آپ استاد اور شاگرد کے رشتہ کو قائم رکھے ہوئے تھے۔ پھر آپ کے لہجے میں بے حد انکساری اور تابعداری ہوتی۔ مسجد میں اگر آپ کرسی پر ادائیگی نماز کی غرض سے بیٹھے ہوتے تو جب میں مسجد میں داخل ہوتا اور کوئی کرسی اگر خالی نہ ہوتی تو آپ فوراً اپنی کرسی میرے لیے خالی کردیتے۔ راستے میں جب بھی مَیں کوئی بات کرتا تو بڑی توجہ سے سنتے۔ محلّے کی دکان پر جب کوئی چیز خریدنے کے لیے مَیں جاتا اور دکان میں آپ پہلے سے موجود ہوتے تو ایک طرف ہٹ جاتے تاکہ مَیں پہلے خریداری کرلوں۔ میری بیوی اگر کبھی آپ کی بیٹی سے جماعتی کام کے سلسلہ میں بات کرنے کے لیے ٹیلی فون کرتی اور آپ ٹیلی فون اٹھالیتے تو بیٹی کو بلانے سے پہلے پوچھتے کہ میرے سر جی کا کیا حال ہے، انہیں میرا سلام کہیں۔
آپ کے ساتھ رفاقت کا زمانہ کم و بیش گیارہ سال رہا۔ آپ بیماری میں بھی نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ جب بھی نماز کے لیے گھر سے چلتے تو بیماری کے باعث نہایت آہستہ آہستہ چلتے لیکن اس کے باوجود وقت پر مسجد میں پہنچ جاتے۔ آپ نہایت دھیمے مزاج کے تھے۔ میں نے آپ کو کبھی ناراض یا غصے کی حالت میں نہیں دیکھا۔ بےحد ملنسار، مہمان نواز اور ہر ایک کے ساتھ محبت کرنے والے انسان تھے۔ اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ آپ کا سلوک مثالی تھا۔ آپ کے متعدد رشتہ داروں نے ربوہ میں آپ کے پاس رہ کر اپنی تعلیم مکمل کی۔ آپ کی چال بڑی باوقار اور شخصیت جاذب نظر تھی۔ آواز اگرچہ بارعب تھی لیکن اس میں محبت اور شفقت پائی جاتی تھی۔ حقیقت میں آپ ایک نیک دل، فرشتہ سیرت، حلیم، وسیع القلب اور رحم دل دوست تھے۔
جب ہم مسجد سے گھر آرہے ہوتے تو آپ اکثر راستے میں خلافت کی برکات کا ذکر کرتے۔ اپنی بیماریوں کے کئی جان لیوا حملوں میں خلیفۂ وقت کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحت عطا ہونے کا ذکر کرتے۔ سلسلہ احمدیہ سے آپؑ کو غیرمعمولی عقیدت اور محبت تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں