مکرم مبارک احمد ندیم صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍جنوری 2010ء میں مکرم منصور احمد صاحب امیر ضلع حیدرآباد نے اپنے بھائی مکرم مبارک احمد ندیم صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ میرے بھائی مکرم مبارک احمد ندیم صاحب 23 دسمبر 2005ء کو لمبی علالت کے بعد میرپور خاص میں وفات پاگئے۔ ان سے 10 دن قبل میری والدہ محترمہ بھی وفات پاگئی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے ازراہ شفقت دونوں مرحومین کی نمازہ جنازہ غائب جلسہ سالانہ قادیان 2005ء کے موقع پر پڑھائی۔
مکرم مبارک ندیم صاحب اگرچہ پیشہ کے لحاظ سے ایک بینکر تھے اور اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے لیکن آپ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ MTA پر حضور انور کی آواز سن کر انہوں نے جو نظم کہی، اُس کا ایک شعر ہے:

ہر روز ہوا کے دوش پہ آواز جو ان کی آتی ہے
کچھ درد کا درماں ہوتا ہے کچھ روح کا ساماں ہوتا ہے

مرحوم نے ابتدائی تعلیم ڈینی سرفارم ضلع میرپور خاص میں حاصل کی اور پھر کچھ عرصہ ربوہ میں تعلیم حاصل کی جہاں آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس
ایدہ اللہ کے ہم جماعت ہونے کا شرف ملا۔ آپ اکثر ذکر کیا کرتے تھے کہ حضور کے بچپن کے زمانہ میں بھی ان کا یہی خیال تھا کہ آپ ضرور بڑے آدمی بنیں گے۔
راقم الحروف نے جب تعلیم الاسلام ہائی سکول بشیرآباد میں ملازمت شروع کی تو مرحوم نے یہاں داخلہ لے لیا اور فرسٹ ڈویژن میں نہ صرف میٹرک پاس کیا بلکہ سکول بھر میں اول رہا۔ پھر کنری کامرس بینک میں ملازم ہوا جو بعد میں یونائیٹڈ بینک میں ضم ہوگیا۔ اگرچہ مبارک احمد ٹائپسٹ کی حیثیت سے ملازم ہوا تھا اور اپنے پیشہ سے وفا اور لگن ایسی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی عنایات سے وہ جلد جلد منزلیں طے کرتاگیا اور AVP کے عہدہ تک ترقی پائی۔
احمدیت اور خلافت سے گہرا عشق تھا۔ جہاں بھی رہے سب سے پہلے MTA لگوایا اور ایسے وقتوں میں جب MTA خال خال تھا ان کے گھر شمع خلافت کے پروانے جمع ہوتے تھے۔ دونوں میاں بیوی آنے والوں کی ضیافت بھی خوشی سے کرتے۔ ؎

اشکوں کا ہماری پلکوں پر ہر رات چراغاں ہوتا ہے
جذبات کے دھاروں میں بہتا اک پیار کا طوفاں ہوتا ہے
اک آس لگائے بیٹھے ہیں آخر تو وہ آ ہی جائیں گے
امید سے آنکھیں روشن ہیں اور دل میں چراغاں ہوتا ہے

اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ آواز بھی بہت ہی اچھی پائی تھی۔ جلسوں اور اجتماعات پر جب نظم پڑھتے تو اک سماں بندھ جاتا تھا اور وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ مرحوم نے اپنی خداداد بصیرت سے مستقبل کی فتوحات کو محسوس کرکے اپنی ایک نظم میں لکھا ؎

پیام مہدی دوراں کے چشمے پھوٹ نکلے ہیں
ہواؤں اور فضاؤں میں نمی معلوم ہوتی ہے
گواہی چاند اور سورج نے دی ہے اک اُجالے کی
مجھے دم توڑتی ہر تیرگی معلوم ہوتی ہے
میری آنکھوں میں ہے نور سحر کا دلنشیں منظر
سحر فضل خدا سے پھوٹتی معلوم ہوتی ہے

مرحوم نماز بہت سنوار کر پڑھتے تھے۔ محترم امیر صاحب کی زیرہدایت جب آپ کے گھر پہ مرکز نماز بنایا گیا تو بطور خاص بروقت اہتمام کرتے تھے۔ نظام جماعت اور امیر کی اطاعت میں ہر لحاظ سے نمایاں تھے۔ سب بھائی بہنوں کے حقوق کا خیال رکھتے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ آپ بہت خلیق، ملنسار اور خوش طبع انسان تھے۔ آپ کی وفات پر تعزیت کے لئے آنے والے، احمدی اور غیراز جماعت، سب نے آپ کے اعلیٰ اخلاق اور اچھی یادوں کا کثرت سے تذکرہ کیا۔ آپ دوسروں کے دکھ درد میں کام آکر خوشی محسوس کرتے تھے۔
مرحوم نے پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کی جن سے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں