مکرم محمد اسحاق انور صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 13؍جنوری 2023ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 23؍دسمبر 2013ء میں مکرم محمد اسحاق انور صاحب کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد اسلم ناصر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مکرم محمد اسحاق انور صاحب
ڈاکٹر محمد اسلم ناصر صاحب

حضرت میاں فضل کریم صاحب گوجرانوالہ شہر کے رہنے والے تھے جنہوں نے بیس سال کی عمر میں 1905ء میں قادیان جاکر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپؓ کی وفات 11؍ستمبر 1939ء کو گوجرانوالہ میں ہوئی۔ آپؓ کے چار بیٹے تھے: مکرم ماسٹر عبدالسلام صاحب، مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب درویش قادیان، مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب واقف زندگی اور مکرم محمد اسحاق انور صاحب واقف زندگی۔
مکرم محمد اسحاق انور صاحب مارچ 1931ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور وہیں سے میٹرک کیا۔ پھر اپنی زندگی وقف کردی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو اکاؤنٹس کا کام دیا، کچھ عرصہ دفتر امانت تحریک جدید میں کام کیا۔ پھر 1954ء میں تحریک جدید کی زمینوں پر نورنگرفارم محمد آباد اسٹیٹ سندھ میں بطور اکاؤنٹنٹ بھجوائے گئے۔ آپ کی شادی مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت حکیم مولوی نظام الدین صاحب مربی جموں و کشمیر سے فروری 1952ء میں ہوئی۔ وہ بیان کیا کرتی تھیں کہ جب مَیں بیاہ کر ربوہ آئی تو بس اڈّہ سے میرے خاوند مجھے سیدھے مسجد مبارک لے گئے۔ لوگ نماز عشاء پڑھ کر گھروں کو جاچکے تھے اور مسجد خالی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آؤ ہم دو نفل پڑھ لیں اور پھر گھر جائیں۔ آپ کا سلوک مجھ سے بہت اچھا رہا۔ گھر میں مالی تنگی تھی مگر آپ کے حسن سلوک اور محبت کی وجہ سے وہ ایام صبروشکر سے گزر گئے۔
محترم اسحاق انور صاحب کو 1963ء تک سندھ میں خدمت کا موقع ملا جہاں ضروریات زندگی کی شدید قلّت تھی بلکہ صاف پانی کا حصول بھی نہایت مشکل تھا۔ ایک بار آپ گھوڑے پر سوار کہیں جارہے تھے کہ گھوڑے نے آپ کو گرادیا جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے۔ خاص طور پر سر پر جو چوٹ لگی اُس سے دماغ کو شدید نقصان پہنچا۔ علاج سے خاص کامیابی نہ ہوئی تو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو علاج کے لیے ربوہ بلوالیا اور پھر ربوہ اور لاہور میں کافی دیر تک علاج جاری رہا۔ آخر اسی تکلیف میں لمبا عرصہ مبتلا رہ کر 11؍نومبر 1971ء کو آپ ربوہ میں وفات پاگئے۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو چھ بیٹوں سے نوازا جن میں سے ایک کم سنی میں وفات پاگیا۔ ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد امجد صاحب آسٹریلیا میں بطور ناظم قضابورڈ خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد امجد صاحب

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب باقاعدہ تہجدگزار تھے۔ آپ کو خلافت سے عشق تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری میں نہایت خشوع و خضوع سے ساری ساری رات دعا میں گزار دیتے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے کہ حضورؓ کی بیماری آپ کو لگادے اور حضورؓ کو شفا عطا ہو۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے بھی قریبی تعلق تھا۔ معذور ہونے کے بعد جب بھی حضورؒ کی زیارت کی خواہش پیدا ہوتی تو نماز کے وقت اپنے بیٹے کے ہمراہ سائیکل پر مسجد مبارک چلے جاتے۔ حضورؒ آپ کو دیکھتے تو مصافحے کا شرف عطا فرماتے اور کافی دیر تک دلجوئی فرماتے۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ سے بھی پیار کا تعلق تھا۔ حضورؒ آپ کو اپنا چھوٹا بھائی کہا کرتے اور کئی بار ملنے گھر بھی تشریف لائے۔ آپ بھی حضورؒ کے گھر جایا کرتے اور حضورؒ کو اپنا روحانی باپ ہی سمجھتے۔
آپ میں امانت و دیانت کا وصف بہت نمایاں تھا۔ سندھ سے واپس آکر وکالت مال اوّل میں متعیّن تھے تو ایک بار مَیں آپ کے دفتر گیا اور اپنے فاؤنٹین پین میں سیاہی بھرلی۔ آپ نے دیکھ لیا اور کہا کہ سیاہی واپس دوات میں ڈالو، یہ سیاہی میرے پاس جماعت کی امانت ہے۔ اسی طرح ایک بار مَیں نے ایک کاغذ دفتر سے اٹھالیا جو ایک طرف سے استعمال ہوچکا تھا۔ آپ نے وہ کاغذ بھی میرے ہاتھ سے لے لیا۔ اُن دنوں سٹیشنری کی بچت کے لیے دفاتر میں استعمال شدہ لفافے بھی دوبارہ استعمال میں لائے جاتے تھے۔
خاکسار کے والدین میں قناعت اور خودداری بہت تھی۔ مالی حالت بہت خراب تھی لیکن آپ نے بچوں کو صدقہ لینے سے منع کیا ہوا تھا۔ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ خاکسار نے پہاڑی پر پتھر کُوٹ کر سخت مشقّت برداشت کی، اسٹیشن پر جاکر مسافروں کا سامان اٹھایا، محنت مزدوری کی اور چارپائیاں بُن کر گزارا کیا مگر کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔
آپ بہت شفیق تھے۔ کبھی ہمیں نہیں ڈانٹا۔ کبھی ہم نے والدین کو باہم ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہی دیکھا۔ دونوں کو نماز باجماعت کا پابند، خلافت سے محبت کرنے والا اور بہت دعاگو پایا۔ یہی خوبیاں انہوں نے اپنی اولاد میں پیدا کرنے کی بھی ہمیشہ کوشش کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں