مکرم محمد اسلم صاحب بھروانہ شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6 جنوری 2011ء مکرم صفدرعلی وڑائچ صاحب کے قلم سے مکرم محمد اسلم صاحب بھروانہ شہید کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جو 28 مئی 2010ء کو مسجد دارالذکر لاہور میں شہید ہوئے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب سے میرا تعلق اس وقت بنا جب آپ قائد خدام الاحمدیہ علاقہ لاہور تھے اور خاکسار قائد علاقہ سرگودھا تھا۔ میں نے بھروانہ صاحب کو ایک دیہاتی درویش منش پیار کرنے والا اور دوستی کا حق ادا کرنے والا انسان پایا۔ آپ ایک بڑے سرکاری آفیسر ہونے کے باوجود عاجزی و انکساری کے لحاظ سے ایک بے نظیر انسان تھے۔ 14؍ اکتوبر 1992ء کو خاکسار سمیت تین احمدیوں کو ایک مخالفِ احمدیت نے قاتلانہ حملہ کرکے تین تین فائر مارے تھے جس سے ہم شدید زخمی ہوگئے۔ خدا تعالیٰ نے دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے ہم تینوں کو دوبارہ فعال زندگی عطا فرمائی۔ اس واقعہ پر مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب بھی عیادت کے لئے تشریف لائے اور پاس بیٹھ کر کافی دیر تک دعائیں کرتے رہے۔ جاتے وقت مجھے فرمایا کہ میں نے تمہارے لئے بڑی دعائیں کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس حادثہ کی کوئی پیچیدگی بھی آپ کے خدمت دین کے کاموں میں حائل نہ فرمائے۔ الحمدللہ کہ ایسا ہی ہوا۔
ایک دفعہ ان کے ہاں لاہور گیا تو باتوں باتوں میں خاکسار نے دریافت کیا کہ اس سرکاری گھر کے علاوہ آپ کا ذاتی مکان بھی ہے؟ تو فرمانے لگے کہ اس کے لئے میں نے اللہ تعالیٰ کی خدمت میں درخواست دے رکھی ہے کہ اے اللہ مجھے اپنے زیر سایہ اپنے پاس ذاتی مکان بنا دے۔ یعنی وصیت کی ہوئی ہے۔ پھر فرمایا کہ وقف بھی منظور ہو چکا ہے۔ جب بھی حضور انور سے ملاقات ہوتی ہے تو حضور فرماتے ہیں کب آرہے ہو؟ مَیں کہتا ہوں حضور جب حکم دیں۔ تو حضور فرماتے ہیں بعد از ریٹائرمنٹ آئیں۔ پھر کہنے لگے کہ اب تم میرے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ میرا مکان اپنے پاس بنادے۔
20 یا 21 گریڈ کے افسر تھے۔ ایک بار سرگودھا اپنے ریلوے سیلون میں پہنچے تو مجھے فون کیا۔ اور پھر میری موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھ کر جمعہ پڑھنے گئے۔ دارالذکر میں بھی جمعہ کے وقت ہمیشہ پہلی صف میں نظر آتے۔ عبادت سے تو عشق تھا ہی لیکن درویش منش بھی ایسے تھے کہ خدمتِ دین کے معاملہ میں کبھی اپنی افسری کو خاطر میں نہیں لائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں