مکرم محمد بوٹا صاحب آف ڈنڈپور

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍اپریل 2012ء میں مکرم ضیاء الرحمان صاحب نے اپنے مضمون میں مکرم محمد بوٹا صاحب آف ڈنڈپور کا ذکرخیر کیا ہے۔
1953ء کے پُرآشوب زمانہ میں مکرم محمد بوٹا صاحب احمدیت کی آغوش میں آئے اور پھر تکالیف کے باوجود آخر دم تک ثابت قدم رہے۔ میرے والد محترم حکیم عطاء الرحمٰن صاحب معلم وقف جدید کے ذریعہ انہوں نے احمدیت قبول کی۔ اگرچہ یہ احمدی ہونے سے پہلے بھی ہمارے گھر کے افراد کی طرح ہی تھے۔
دراصل جب پاکستان بنا تو یہ بھی مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے ہماری طرح ڈنڈپور آکر ٹھہرے۔ پانچ چھ سال کا بچہ محمد بوٹا اور اس کے والد کے سوا ان کے باقی عزیز قتل کئے جاچکے تھے، اس لئے بھی ان کے ساتھ سب کو ہمدردی تھی۔ اکثر ہمارے گھر سے کھانا کھا لیتے گھر کے کام بھی کرتے۔ سالن نہ ہوتا تو شکر وغیرہ کے ساتھ روٹی کھالیتے۔ اس طرح بچپن سے ہی انہیں احمدی گھر کا ماحول مل گیا تھا۔ آہستہ آہستہ سوال بھی پوچھنے لگ گئے اور پوری تسلی کرلینے کے بعد پھر احمدیت قبول کرلی۔ پھر انہوں نے میرے دادا جان مرحوم سے قرآن پاک پڑھا جنہوں نے ویسے تو گاؤں کے سینکڑوں بچوں کو قرآن کریم پڑھایا مگر محمد بوٹا صاحب نے جوانی میں احمدی ہونے کے بعد پڑھا اور پھر ترجمہ کے ساتھ بھی پڑھا۔ اور اَن پڑھ ہونے کے باوجود کچھ ہی عرصہ میں یہ اخبار ’’الفضل‘‘ بھی پڑھنے لگ گئے۔
مکرم محمد بوٹا صاحب نے اگرچہ ساری عمر محنت مزدوری کی مگر اپنی نمازوں کا باقاعدہ خیال رکھا۔ پانچوں نمازوں کو باجماعت اداکرنے کی پوری کوشش کرتے اور نماز تہجد بھی باقاعدہ ادا کرتے۔
احمدیت کی خاطر شروع میں ایک دفعہ آپ کو مار بھی کھانی پڑی مگر خدا کے فضل سے احمدیوں کا گاؤں میں اچھا اثر و رسوخ تھا۔ اس لئے اس کے بعد پھر کسی کو ایسی جرأت نہیں ہوئی۔
جلسہ سالانہ پر ربوہ آنے کے لئے کرایہ کا بندوبست سال کے آغاز سے ہی شروع کر دیتے۔ یہاں بھی ہمارے گھر دارالعلوم میں قیام کرتے لیکن تہجد کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد مبارک میں پہنچتے۔ جلسہ گاہ میں بھی بروقت پہنچ کر آگے بیٹھتے اور جلسہ ختم ہونے پر اٹھتے۔ بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ جنوری 2012ء میں 72 سال کی عمر میں وفات پائی اور ہانڈوگجر میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں